آج کے اخبارات کے اداریے،عوام کا درد اور حکمرانوں کی بے حسی
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
آج 20 جولائی 2025 کو پاکستان کے بڑے اخبارات جیسے ڈان، جنگ، ایکسپریس، نوائے وقت اور بی بی سی اردو کے اداریوں اور خبروں میں عوام کو درپیش گوناگوں مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان مسائل پر نہ صرف پرنٹ میڈیا میں کھل کر بات کی جا رہی ہے بلکہ سوشل میڈیا، خاص طور پر ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر بھی یہ موضوعات ٹرینڈ کر رہے ہیں، جو عوام کی بے چینی، مایوسی اور حکمرانوں کی بظاہر بے حسی کو واضح طور پر دکھاتے ہیں۔ ان تمام مباحثوں سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں عوامی درد شدت اختیار کر چکا ہے اور حکومت کی جانب سے مؤثر اقدامات کی کمی اس درد میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔
ملک میں سیلاب اور واٹر مینجمنٹ کا مسئلہ ہر سال معمول کا بحران بن چکا ہے اور اس سال بھی اس پر کھل کر بات کی گئی ہے۔ ڈان کے ایک اداریے نے سیلاب کو پاکستان کا "معمول بن جانے والا بحران” قرار دیا، جو واٹر مینجمنٹ کے فقدان اور ڈیموں کی تعمیر میں سیاسی و قوم پرست رکاوٹوں کا نتیجہ ہے۔ یہ اداریہ صرف پانی کی تباہ کاریوں کا ذکر نہیں کرتا بلکہ اس کے پیچھے کارفرما سیاسی رکاوٹوں کو بھی تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ تجویز دی گئی ہے کہ نئے انتظامی یونٹس اور قوم پرستی کی سیاست کے خاتمے سے ہی اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی تجویز ہے جو سالہا سال سے دہرائی جا رہی ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے، جس سے عوام کے اندر شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ واٹر مینجمنٹ کے مسائل، جیسے پانی کی قلت اور تباہ کن سیلابوں کا غیر متوازن سلسلہ، ملک کی زرعی معیشت اور لاکھوں افراد کی زندگیوں کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس مسئلے پر شدید بحث جاری ہے، جہاں ایک صارف @Khyousufzai90 جیسے افراد ڈان کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ڈیموں کی تعمیر میں سیاسی رکاوٹوں پر تنقید کر رہے ہیں اور نئے انتظامی یونٹس کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ یہ عوامی سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ لوگ مسئلے کی جڑ کو سمجھتے ہیں لیکن حکمرانوں کی جانب سے ٹھوس حل نہ ہونے پر نالاں ہیں۔
امن و امان کی صورتحال ملک بھر میں بالخصوص خیبرپختونخوا میں بدستور ایک تشویشناک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ایکسپریس نے خیبرپختونخوا میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر تفصیلی تبصرہ کیا ہے، جہاں علی امین گنڈاپور نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ صورتحال کس قدر سنگین ہے کہ صوبائی حکومت کو تمام فریقین کو ایک میز پر لانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ ڈان نے انسداد دہشت گردی کے عدالتی فیصلوں اور مقدمات کی منتقلی کے بارے میں لکھا ہے، جو دہشت گردی کے خلاف جاری کوششوں کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ ان عدالتی فیصلوں اور مقدمات کی پیچیدگیاں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ دہشت گردی کا مسئلہ صرف فوجی کارروائیوں سے حل ہونے والا نہیں بلکہ ایک جامع قانونی اور عدالتی نظام کی بھی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں ہونے والی شہادتوں پر والدین کے صبر اور حب الوطنی کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی حکومت کی ناکامی پر سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ صحافی ارشد شریف کے قتل سے متعلق انصاف کی مانگ آج بھی سوشل میڈیا پر ایک اہم موضوع ہے، جہاں ان کے خاندان کی جدوجہد کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ عوامی احساسات کا آئینہ دار ہے کہ وہ انصاف اور امن کی فراہمی میں حکومت کی جانب سے مزید فعال کردار کے منتظر ہیں۔
ملک کی معاشی صورتحال بھی عوام کے لیے ایک مستقل درد سر ہے۔ ڈان نے فری لانس اور ریموٹ ورک سیکٹر کی ترقی پر روشنی ڈالی ہے، جہاں برآمدات میں 90 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ 77 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ یہ بلاشبہ ایک مثبت پہلو ہے اور معاشی ترقی کا اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔ تاہم یہ خوش آئند خبر ملک کی مجموعی معاشی مشکلات کو چھپا نہیں سکتی۔ اے آر وائی نیوز اور آج ٹی وی نے سونے کی قیمتوں میں اضافے اور موٹر سائیکل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے پر بات کی ہے، جو عام صارفین پر معاشی بوجھ بڑھا رہے ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جو براہ راست ہر طبقے کے افراد کو متاثر کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی صارفین مہنگائی کے اثرات اور حکومتی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔ مہنگائی کی یہ لہر عوام کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کر رہی ہے، جس سے زندگی گزارنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اور حکومت سے اس پر قابو پانے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کا مطالبہ شدت اختیار کر رہا ہے۔ عوامی سوچ یہ ہے کہ جب تک بنیادی ضروریات کی اشیاء کی قیمتیں کنٹرول میں نہیں آتی، معاشی ترقی کے دعوے بے معنی ہیں۔
کشمیر ایشو بھی ایک ایسا دیرینہ مسئلہ ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی اور عوامی جذبات کا اہم حصہ ہے۔ ڈان اور نوائے وقت نے کشمیر سے متعلق تاریخی اور موجودہ حالات پر تبصرہ کیا ہے، خاص طور پر 19 جولائی 1947 کو پاکستان سے الحاق کی قرارداد کی یاد تازہ کی گئی ہے۔ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو "وحشیانہ اقدام” قرار دیا گیا ہے، جو کشمیری عوام کے حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ مسئلہ ہر پاکستانی کے دل میں بسا ہوا ہے اور اس پر حکومتی غیر فعالیت عوام کو مزید پریشان کرتی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت میں آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام اس مسئلے پر کسی قسم کی کمپرومائزنگ پوزیشن قبول کرنے کو تیار نہیں۔ حکمرانوں کی جانب سے اس مسئلے پر عملی اقدامات کا فقدان عوامی بے چینی کا باعث بن رہا ہے۔
صحت اور سماجی مسائل بھی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ بی بی سی اردو اور نوائے وقت نے اداکارہ حمیرا اصغر کی پراسرار ہلاکت کے کیس میں پیش رفت پر تبصرہ کیا ہے، جہاں پوسٹ مارٹم رپورٹس میں کوئی زہریلی یا نشہ آور چیز نہ ملنے کی بات کی گئی ہے۔ اس کیس میں شفافیت اور انصاف کی فراہمی کے لیے عوامی دباؤ مسلسل موجود ہے۔ اس کے علاوہ، نوائے وقت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے حکومتی رویے پر شدید تنقید کی ہے۔ یہ وہ سماجی مسئلہ ہے جو طویل عرصے سے عوام کے ذہنوں میں موجود ہے اور ان کی رہائی کے لیے ایکس (سوشل میڈیا) پر بھی ایک بھرپور مہم جاری ہے۔ عوامی سوچ یہ ہے کہ حکومت کو اپنی بیٹی کی رہائی کے لیے مزید سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں اور موجودہ رویہ حکمرانوں کی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ مسائل انسانی حقوق اور ریاستی ذمہ داریوں پر سنگین سوالات اٹھاتے ہیں۔
تعلیم اور سرکاری اصلاحات کی ضرورت پر بھی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ ڈان نے سرکاری افسران کی بھرتی، ترقیاور تربیت کے نظام میں بہتری کی ضرورت پر زور دیا ہے، جیسا کہ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اجلاس میں بتایا۔ یہ اصلاحات ملکی ترقی اور گڈ گورننس کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ تاہم، ان اصلاحات کا صرف اجلاسوں میں ذکر کرنا کافی نہیں بلکہ ان پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ عوامی سطح پر تعلیم کے معیار اور سرکاری اداروں کی کارکردگی پر شدید عدم اطمینان پایا جاتا ہے اور یہ توقع کی جاتی ہے کہ حکومت اس شعبے میں حقیقی بہتری لائے گی۔
مجموعی طور پر آج کے اخبارات اور سوشل میڈیا پر زیر بحث تمام مسائل پاکستان کے عام شہری کے روزمرہ کے درد کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے لے کر امن و امان کی خراب صورتحال، بڑھتی ہوئی مہنگائی، کشمیر کے حل طلب مسئلے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسے سماجی معاملات تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر شعبے میں عوام حکومت کی جانب سے فوری، مؤثر اور نتیجہ خیز اقدامات کے منتظر ہیں۔ کیا حکمران واقعی عوام کی اس بے چینی، اضطراب اور مایوسی کو محسوس کر رہے ہیں یا یہ درد صرف اداریوں اور سوشل میڈیا کی زینت بن کر ہی رہ جائے گا اور حکومتی بے حسی بدستور برقرار رہے گی؟