مرزاپور، اتر پردیش میں ایک انتہائی افسوسناک اور شرمناک واقعہ پیش آیا، جہاں کانور یاتریوں کے ایک گروہ نے مبینہ طور پر بھارتی فوج کے ایک حاضر سروس سپاہی پر بہیمانہ تشدد کیا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز اور رپورٹس کے مطابق، یہ کانوریے آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کے نظریات کے حامی سمجھے جاتے ہیں، جنہوں نے معمولی تکرار پر اُس فوجی کو سرعام مارا پیٹا جو سرحدوں پر ملک کی حفاظت کرتا ہے.مذکورہ واقعہ مرزاپور شہر کے مصروف علاقے میں پیش آیا، جہاں کانوریوں کے ایک گروہ کی ایک فوجی اہلکار سے مبینہ تلخ کلامی ہوئی۔ تنازع بڑھتے ہی کانوریوں نے اُس فوجی پر دھاوا بول دیا، اُسے گھیر کر لاتوں، گھونسوں اور ٹھوکروں سے مارنا شروع کر دیا۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سپاہی گِر کر مدد کے لیے پکار رہا ہے، لیکن کوئی بھی اس کی مدد کو نہیں آیا۔

اس دوران کئی لوگ ویڈیو بناتے رہے لیکن کسی نے تشدد روکنے کی کوشش نہیں کی۔ متاثرہ فوجی کی شناخت تاحال ظاہر نہیں کی گئی، لیکن سوشل میڈیا پر عوام شدید غصے میں ہیں اور حکومت سے سخت کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر شدید ردعمل
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ہزاروں صارفین نے مودی حکومت اور بی جے پی قیادت پر تنقید کی ہے کہ ایک فوجی، جو ملک کے تحفظ کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالتا ہے، اُسے اگر اپنے ہی ملک میں سڑک پر بے عزت کیا جائے تو یہ ایک سنگین المیہ ہے۔ سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ "کیا یہی ہے نیا بھارت؟ جہاں سپاہی کو سرعام مارا جائے اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہے؟”

مودی حکومت کی خاموشی پر سوالات:
حکومت کی جانب سے تاحال واقعے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ نہ ہی اتر پردیش پولیس یا وزارت داخلہ کی طرف سے اب تک کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ عوامی حلقے سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر یہی واقعہ کسی اور طبقے یا ریاست میں ہوتا تو شاید فوری ردعمل آتا۔اس واقعے نے نہ صرف فوجی اہلکاروں کی عزت نفس کو مجروح کیا بلکہ ریاستی اداروں کی بے حسی کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ عوامی دباؤ کے پیش نظر امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حکومت جلد کوئی مؤقف اختیار کرے گی، لیکن تاحال خاموشی حکومت پر سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ کانوری یاترا کے دوران اکثر ہندو یاتری سڑکوں پر پرتشدد رویہ اختیار کرتے ہیں، لیکن حکومتی ادارے اور پولیس عموماً خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔اس واقعے نے ایک بار پھر مذہبی انتہا پسندی، ریاستی اداروں کی جانبداری اور سپاہیوں کی حفاظت سے متعلق سوالات کو جنم دے دیا ہے۔

ماسکو میں پیوٹن اور علی لاریجانی کی ملاقات، ایرانی جوہری پروگرام پر تبادلہ خیال

Shares: