سلیب گردی، ن لیگ کا تابوت
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مسلم لیگ (ن) ایک ایسی جماعت کے طور پر ابھری جس نے اپنے دورِ اقتدار میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کو اپنی کارکردگی کا معیار بنایا۔ سڑکیں، موٹرویز، اور انفراسٹرکچر وہ شعبے تھے جہاں اس جماعت نے سرمایہ کاری کی، اور اپنے بیانیے کو اس ترقیاتی ماڈل کے گرد گھمایا۔ لیکن اقتدار میں بارہا آنے کے باوجود عوامی فلاح کے حقیقی مسائل — مہنگائی، توانائی، تعلیم، صحت، روزگار اور معاشرتی انصاف ، ہمیشہ ثانوی حیثیت رکھتے رہے۔

آج جب مہنگائی آسمان چھو رہی ہے، بجلی کے بلوں نے عوام کی کمر توڑ دی ہے اور بے روزگاری نوجوان نسل کی امیدیں نگل رہی ہے، تو ن لیگ کی کارکردگی پر سوال اٹھانا محض تنقید نہیں بلکہ ایک قومی ضرورت بن چکا ہے۔ عوام اس وقت ایک ایسے معاشی جبر کا شکار ہیں جس کی جڑیں حکومتی پالیسیوں میں پیوست ہیں اور جس کے چہرے کو اویس لغاری جیسے وزرا کی صورت میں شناخت ملی ہے۔

بطور وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کی کارکردگی عوامی ریلیف کے بجائے عوامی اذیت کا سبب بنی۔ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اور ناقابلِ برداشت اضافہ، شدید لوڈشیڈنگ اور توانائی کے شعبے میں ناقص حکمرانی نے عوام کو ذہنی، معاشی اور نفسیاتی دباؤ میں مبتلا کر دیا ہے۔ حیرت ہے کہ ایسے سنگین حالات میں بھی وزیراعظم شہباز شریف نہ صرف خاموش ہیں بلکہ ایسے وزیروں کی سرپرستی کرتے دکھائی دیتے ہیں جو عوامی مسائل کے حل کی بجائے انہیں مزید گھمبیر بنانے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔

عوامی اذیت کی ایک نمایاں مثال بجلی کے بلوں میں لاگو "سلیب سسٹم” ہے، جس کے ذریعے محض ایک یونٹ کی زیادتی پر عام شہری کو پندرہ ہزار روپے تک کا بل تھما دیا جاتا ہے۔ "سلیب گردی” کی اصطلاح عوامی شعور نے اس سنگین ناانصافی کے ردعمل میں وضع کی ہے۔ 200 یونٹ تک بجلی کا بل تقریباً 3000 روپے ہوتا ہے، لیکن 201 یونٹ ہوتے ہی یہی بل چھلانگ لگا کر پندرہ ہزار تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ اضافہ محض ٹیکس نہیں بلکہ ایک قسم کی معاشی دہشتگردی ہے، جو ریاستی پالیسیوں کے نام پر عوام پر مسلط کی جا رہی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں شہری ریاست کو سہارا دینے کے بجائے خود کو اس کے ظلم سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔

یہ تنقید صرف معیشت یا توانائی کے شعبے تک محدود نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کے اندرونی بحران اور قیادت کی بے حسی کا بھی آئینہ دار ہے۔ پارٹی کے مقامی کارکنان اور ارکانِ اسمبلی متعدد بار اس بات کا شکوہ کر چکے ہیں کہ قیادت نہ انہیں سن رہی ہے، نہ ترقیاتی فنڈز فراہم کر رہی ہے، اور نہ ہی عوامی رابطے کو اولیت دی جا رہی ہے۔ نتیجتاً پارٹی کے اندر بداعتمادی، فاصلہ اور مایوسی جنم لے چکے ہیں، جو کسی بھی جماعت کے لیے زوال کی علامت ہوتے ہیں۔

اسی زوال کا اظہار عوام کی اس شدید مایوسی سے ہوتا ہے جو اب محض خاموش ناراضی نہیں بلکہ ایک متحرک اور بلند احتجاج کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ وہ بیانیہ جسے ن لیگ نے اپنے سیاسی وجود کی بنیاد بنایا تھا "ووٹ کو عزت دو” آج عوام کی نظروں میں اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔ کیونکہ جب ووٹ دینے والا شہری مہنگائی سے بلکتا ہے اور اس کے صبر کا امتحان ہر بل، ہر اشیائے ضرورت، ہر سرکاری سروس میں لیا جاتا ہے تو وہ اس بیانیے کو ایک کھوکھلی نعرہ بازی سے زیادہ نہیں سمجھتا۔

یہ حالات صرف ایک سیاسی جماعت کی ساکھ کا بحران نہیں بلکہ جمہوری اعتماد کے ٹوٹنے کا اشارہ بھی ہیں۔ اگر ایک جماعت مسلسل اقتدار میں رہنے کے باوجود عوام کے بنیادی مسائل کو حل نہ کرے تو عوام بھی بالآخر اس جماعت کو سیاسی سزا دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ عوام کی نظریں اب ان نمائندوں سے جواب مانگتی ہیں، جنہوں نے اقتدار تو لیا مگر خدمت نہیں کی۔

اگر مسلم لیگ (ن) واقعی اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اسے اب فیصلے کرنے ہوں گے ، وہ فیصلے جو صرف وزارتوں کی تبدیلی تک محدود نہ ہوں بلکہ پالیسیوں، ترجیحات اور طرزِ حکمرانی میں انقلابی اصلاحات پر مبنی ہوں۔ اویس لغاری جیسے وزرا کی موجودگی پارٹی کے لیے سیاسی بوجھ بن چکی ہے اور جب عوام ایسے افراد کو اپنا دشمن سمجھنے لگیں تو جماعت کا دفاع کرنا ممکن نہیں رہتا۔

یہ لمحہ ن لیگ کے لیے محض بحران نہیں ہے بلکہ ایک فیصلہ کن موڑ ہے! پارٹی کو یا تو خود کو تبدیل کرنا ہوگایا پھر عوام اسے بدل ڈالیں گے۔ "سلیب گردی” جیسے الفاظ چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ ریاست اور شہری کے درمیان اعتماد کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔

اگر ن لیگ نے اب بھی عوام کے درد کو محسوس نہ کیا تو پھر یہ حقیقت بن جائے گی کہ اس جماعت کا تابوت عوام خود اپنے کندھوں پر اٹھائیں گے۔ اب وہ وقت دور نہیں جب انتخابی میدان سجے گا اور عوامی عدالت ن لیگ کو آخری بار طلب کرے گی۔ یہ ایک ایسا امتحان ہے جہاں یا تو وہ سرخرو ہوں گے، یا پھر تاریخ کے اوراق میں گم ہو جائیں گے۔

Shares: