غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے خوراک کی بندش کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جانے کے نتیجے میں غذائی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 4 بچوں سمیت کم از کم 15 فلسطینی بھوک اور قلتِ غذا کے باعث جاں بحق ہو گئے۔
فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق غزہ میں شدید فاقہ کشی اور غذائی قلت نے نہ صرف بچوں بلکہ عام شہریوں کی زندگیوں کو بھی سنگین خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ گزشتہ تین دنوں میں خوراک کی کمی کے باعث 21 بچے انتقال کر چکے ہیں، جبکہ مجموعی طور پر 101 فلسطینی، جن میں 80 بچے شامل ہیں، غذائی قلت کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی اونروا نے انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں 10 لاکھ سے زائد بچے شدید بھوک میں مبتلا ہیں۔ ایجنسی کے مطابق مارچ 2024 سے اب تک محدود امداد اور مسلسل بمباری کے باعث بچوں کی نشوونما اور صحت شدید متاثر ہو رہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مصر کی سرحد پر کھڑے امدادی ٹرکوں کو داخلے کی اجازت نہیں دی جا رہی، جبکہ بمباری اور دیگر رکاوٹوں کے باعث شہری ایک وقت کے کھانے کو ترس گئے ہیں۔ والدین کے لیے اپنے بچوں کو خوراک دینا ناممکن بن چکا ہے۔اونروا کے ترجمان کا کہنا ہے کہ غذائی بحران نازک موڑ پر پہنچ چکا ہے، اور فوری اقدامات نہ کیے گئے تو مزید جانوں کا ضیاع ہو سکتا ہے۔
اونروا نے عالمی برادری سے فوری، بلا تاخیر اور بلارکاوٹ انسانی امداد فراہم کرنے کی اپیل کی ہے تاکہ غزہ میں معصوم جانوں کو بھوک کی اذیت ناک موت سے بچایا جا سکے۔
سوات کے مدرسے میں طالبعلم کی موت، استاد گرفتار
احمد خان بچھر نے فیصلہ لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا
ٹرمپ کا اوباما پر سنگین الزام، غدار قرار دیا