بلوچستان میں قتل ہونیوالی خاتون کی والدہ کا بیان سامنے آگیا جس نے کیس کا رخ ہی موڑ دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مقتولہ کی والدہ نے کہا کہ میرا نام گل جان ہے اور میں بانو کی ماں ہوں، جھوٹ نہیں بول رہی ہوں، حقیقت یہ ہے کہ بانو پانچ بچوں کی ماں تھی، وہ کوئی بچی نہیں تھی اس کا بڑا بیٹا نور احمد ہے، جس کی عمر 18 سال ہے، دوسرا بیٹا واسط ہے، جو 16 سال کا ہےاس کے بعد اس کی بیٹی فاطمہ ہے، جو 12 سال کی ہے، پھر اس کی بیٹی صادقہ ہے، جو 9 سال کی ہے، اور سب سے چھوٹا بیٹا زاکر ہے جس کی عمر 6 سال ہے۔
والدہ نے کہا کہ یہ کوئی بے غیرتی نہیں تھی بلکہ بلوچ رسم و رواج کے مطابق کیا گیا، بانو 25 دن احسان کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور وہ اس کے ساتھ رہ رہی تھی 25 دن بعد وہ واپس آ گئی تب بانو کے شوہر نے بچوں کی خاطر اسے معاف کر دیا اور اسے ساتھ رکھنے پر راضی ہو گیا، احسان اللہ آئے روز میرے بیٹوں کو دھمکیاں دیتا تھا، آئے روز ٹک ٹاک ویڈیوز بنا کر میرے بیٹوں کو طیش دلاتا تھا۔
معاشی سطح پر حکومت پاکستان کی مکمل معاونت کریں گے،عالمی بینک
والدہ نے مزید کہا کہبیٹی بانو کو بلوچی رسم و رواج کے مطابق سزا دی گئی، بلوچی معاشرتی جرگے کے ذریعے بانو کو سزا دی گئی، ہمارے لوگوں نے کوئی ناجائز فیصلہ نہیں کیا، ہم نے لڑکی کو قتل کرنے کا فیصلہ سردار شیر باز ساتکزئی کے ساتھ نہیں، بلکہ بلوچی جرگے میں کیا،میں اپیل کرتی ہوں کہ سردار شیر باز ساتکزئی اور دیگر گرفتار افراد کو رہا کیا جائے۔
بلوچستان میں جوڑے کا قتل :ملزم سردار شیرباز ستکزئی کا مزید 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
واضح رہے کہ کوئٹہ کے نواحی علاقے ڈیگاری میں عیدالاضحیٰ سے 3 روز قبل بانو ستکزئی اور احسان اللہ سمالانی کو بے دردری سے سرعام قتل کیا گیا تھا، واقعے کی ویڈیو 2 روز قبل سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان سردار سرفراز بگٹی کی جانب سے واقعے کا نوٹس لینے پرپولیس حرکت میں آئی تھی۔
واقعے کا مقدمہ ہنہ اوڑک تھانے میں ایچ ایچ او کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا جبکہ پولیس نے مرکزی ملزم بشیر احمد اور ستکزئی قبیلے کے سربراہ سردار شیر باز ستکزئی، ان کے 4 بھائی اور 2 محافظوں سمیت دیگر ملزمان کو گرفتار کرلیا تھا۔
مدعی مقدمہ کے مطابق بانو ستکزئی اور احسان اللہ سمالانی کو کاروکاری کے الزام میں قتل کیا گیا، واقعے میں مبینہ طور پر شاہ وزیر، جلال، ٹکری منیر، بختیار، ملک امیر، عجب خان، جان محمد، بشیر احمد اور دیگر 15 نامعلوم افراد شامل تھے، ان افراد نے خاتون اور مرد کو سردار شیر باز خان کے سامنے پیش کیا جہاں سردار نے کارو کاری کا فیصلہ سنایا اور دونوں کو قتل کرنے کا حکم دیا، بعدازاں انہیں گاڑیوں میں لے جا کر کوئٹہ کے مضافاتی علاقے ڈیگاری میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان سردار سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ ڈیگاری میں قتل کیے گئے خاتون اور مرد کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں تھا، دونوں شادی شدہ تھے اور دونوں کو 5،5 بچے تھے۔








