سکھوں کے جائز مطالبات کو دبانے کے لیے انہیں ‘خالصتانی’ اور ‘ملک دشمن’ قرار دینا مودی سرکار کا وطیرہ بن چکا ہے
1984کے مظلوم سکھوں کو انصاف دلانے کی بجائے مودی سرکار قاتلوں کو بچانے میں مصروف عمل ہے، این ڈی ٹی وی کے مطابق؛دہلی کے وزیر منجندر سنگھ سرسا نے 1984 سکھ فسادات کی رپورٹ طلب کرنے کے لیے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا،رپورٹ میں فسادات میں سابق وزیر اعلیٰ مدھیہ پردیش کمل ناتھ کی گوردوارہ پر موجودگی کا ذکر ہے،این ڈی ٹی وی کے مطابق ہائی کورٹ میں دائر درخواست کا موقف ہے کہ؛
ہجوم نے کمل ناتھ کی قیادت میں 2 سکھوں، اندر جیت سنگھ اور منموہن سنگھ، کو گوردوارہ رکاب گنج صاحب میں زندہ جلا دیا تھا ،ہائی کورٹ کے 2022 کے حکم پر مرکز نے جو حلف نامہ داخل کیا، اُس میں کمل ناتھ کے کردار کو دانستہ طور پر نظرانداز کیا، وکیل ایچ ایس پھولکا کے مطابق پولیس ریکارڈ اور کئی اخبارات میں کمل ناتھ کی جائے وقوعہ پر موجودگی کے شواہد موجود ہیں، ٹرائل کورٹ نے تمام ملزمان کو یہ کہہ کر بری کر دیا کہ وہ جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھے،
پولیس ریکارڈز اور صحافی سنجے سوری کی عینی شاہد رپورٹ کے باوجود کمل ناتھ کی موجودگی کو نظر انداز کرنا مودی کی قیادت اور جانب دار عدالتی نظام پر بڑا سوال ہے، بی جے پی سرکار نے 1984 کے فسادات میں کمل ناتھ کے کردار کو حلف نامے میں چھپا کر انصاف پر سوال کھڑے کر دیے،گرفتاریوں اور میڈیا بلیک آؤٹ کو جواز فراہم کرنے کے لیے بی جے پی سکھ کارکنوں کو دانستہ طور پر "خالصتانی” کہہ کر پکارتی ہے،گردوارہ بورڈز کی تشکیلِ نو سے لے کر دہلی ایس جی پی سی کے استعفوں تک بی جے پی کی منظم کوششوں کا نتیجہ ہے،محض پی آر اقدامات کے ذریعے مودی سرکار سکھ برادری میں حکمران جماعت کے خلاف اجنبیت کم نہیں کر سکتی،1984 سکھ نسل کشی میں ملوث افراد کو بچانا مودی حکومت کی اقلیت دشمن پالیسی کی عکاسی کرتا ہے








