عوام کے اور کتنے امتحان باقی ہیں؟
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بڈانی
چینی اسکینڈل کے دھوئیں سے ابھی فضاء صاف نہیں ہوئی تھی کہ خوردنی تیل کے نرخوں کی آگ نے ایک اور معاشی سانحے کا دروازہ کھول دیا۔ عالمی منڈی میں پام آئل کی قیمتیں 24 فیصد تک کم ہوئیں لیکن پاکستان میں اس کے برعکس کوکنگ آئل 4.5 فیصد مہنگا کر دیا گیا۔ صارفین فی لیٹر 150 روپے اضافی ادا کرنے پر مجبور ہو گئے اور اس کا فائدہ ان عوام دشمن مافیاز کو ہوا جو ہر بحران کو اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ آخر یہ منافع خور کون ہیں؟ ان پر ہاتھ ڈالنے سے حکومتی ادارے کیوں گھبراتے ہیں؟ اور اگر ریاستی مشینری بے بس ہے تو کیا عوام کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے؟
وزیر اعظم شہباز شریف نے رواں برس فروری میں عوام کو ریلیف دینے کے بلند بانگ دعوے کیےلیکن اپریل اور مئی میں بناسپتی مینوفیکچررز سے ہونے والے اجلاسوں کے باوجود قیمتیں کم نہ ہو سکیں۔ کیا یہ ریلیف محض سیاسی دعوے تھے یا پھر پسِ پردہ مفادات نے ہر کوشش کو ناکام بنا دیا؟ عوام آج بھی انتظار میں ہے کہ حکومت مہنگائی کے سیلاب کے آگے کوئی بند باندھے گی، مگر اس سیلاب کے ساتھ اگر ریاست خود بہتی نظر آئے تو عوام جائے تو کہاں جائے؟
ادھر آڈیٹر جنرل کی رپورٹ نے بجلی کے صارفین پر ایک اور بجلی گرائی ہے۔ 8 بجلی کی تقسیم کار کمپنیاںجن میں آئیسکو، لیسکو، میپکو، پیسکو، کیسکو، سیپکو، حیسکو، اور ٹیسکو ہیں جو 244 ارب روپے کی اوور بلنگ میں ملوث پائی گئیں۔ صرف ایک ماہ میں 2 لاکھ 78 ہزار صارفین کو 47 ارب روپے کے اضافی بل بھیجے گئے اور ملوث افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔
کیسکو نے زرعی صارفین کو 148 ارب روپے سے زائد کی اوور بلنگ کی، فیڈرز پر 18 ارب روپے کے جعلی بل ڈالے گئے، آڈٹ کے لیے ریکارڈ مانگا گیا تو کمپنیوں نے تعاون سے گریز کیا۔ آخر یہ کون سے بااثر لوگ ہیں جو قانون اور انصاف سے بالا تر ہیں؟
اب ایک اور تلخ حقیقت کی جانب توجہ درکار ہے کہ ہر سال جب بارشیں اور سیلاب آتے ہیں تو غریبوں کے گھر، مویشی، فصلیں اور زندگی کی ساری جمع پونجی بہا لے جاتے ہیں۔ کبھی کوہِ سلیمان کے پہاڑوں سے آنے والا سیلاب ہوتا ہے تو کبھی دریائے سندھ کا پانی اپنے کنارے توڑ دیتا ہے، لیکن کیا آپ نے کبھی سنا کہ کسی حکمران کے محل میں پانی داخل ہوا ہو؟ ان کے خاندان کا کوئی فرد سیلاب میں بےگھر ہوا ہو؟ یا ان کے بچے کسی ریلیف کیمپ میں فاقے سے بیٹھے ہوں؟
قدرتی آفات ہوں یا دہشت گردی، طوفان ہوں یا زلزلے، ہر آفت کا شکار ہمیشہ عام آدمی ہی کیوں ہوتا ہے؟ آخر یہ کیسی ریاست ہے جہاں حکمران تو ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں اور عوام ہر مصیبت کا ہدف بنتے ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں کہ حکمرانوں نے اپنے محلوں کے گرد حفاظتی بند باندھ رکھے ہیں؟ کیا ان کی طاقتور گاڑیاں، محافظ، بیرونِ ملک اکاؤنٹس اور ایلیٹ کلاس رابطے انہیں ان آفات سے بچا لیتے ہیں جو عوام کے لیے قیامت بن کر آتی ہیں؟
تو پھر سوال یہ ہے کہ اگر اقتدار میں بیٹھے لوگ ان اسکینڈلز، اوور بلنگ، مہنگائی، قدرتی آفات اور دہشت گردی سے متاثر نہیں ہوتے تو کیا وہ عوام کے درد کو محسوس بھی کر سکتے ہیں؟ اور اگر محسوس نہیں کرتے تو پھر ان سے بہتری کی امید رکھنا محض فریب نہیں تو اور کیا ہے؟
اب وقت آ گیا ہے کہ عوام حکمرانوں سے سوال کرے کہ ان اسکینڈلز میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کب ہوگی؟. عوام کو ریلیف دینا کس کی ذمہ داری ہے؟. کیا ان بااثر مجرموں کے کھرے ایوانِ اقتدار میں جا کر گم ہو جاتے ہیں؟. اگر حکمران واقعی ان اسکینڈلز میں ملوث نہیں تو پھر کارروائی کیوں نہیں ہو پاتی؟. اور سب سے اہم سوال کہ عوام کے اور کتنے امتحان باقی ہیں؟
دہشت گردی، پیٹرولیم مصنوعات کی مہنگائی، بجلی کے بلوں کی "سلیب گردی” اور ہر طرف معاشی استحصال کا بازار گرم ہے۔ عوام آخر کب تک خاموش رہے گی؟ کیا یہ قوم قربانی کے بکرے بننے کے لیے بنی ہے؟
اب عوام کے لیے فیصلہ کن وقت آن پہنچا ہے یا تو وہ خاموش رہ کر مزید تباہی کے لیے تیار ہو جائیں یا پھر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں۔ کیونکہ اب سوال یہ نہیں کہ کب ریلیف ملے گا بلکہ یہ ہے کہ کیا ریاست واقعی عوام کی ہے یا صرف چند خاندانوں کی جاگیر؟
کیونکہ اگر ریاست صرف امیروں کو بچانے کا نام ہے، تو غریبوں کے لیے اس ریاست کا کیا مطلب باقی رہ جاتا ہے؟