گوجرخان (باغی ٹی وی رپورٹ) تحصیل گوجرخان کے سول ہسپتال میں ایک انتہائی شرمناک واقعہ پیش آیا ہے، جہاں پولیس کا ایک اہلکار خواتین کے باتھ روم میں نازیبا ویڈیوز اور تصاویر بناتا ہوا رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا گیا۔ واقعہ نے نہ صرف ہسپتال انتظامیہ بلکہ سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر بھی کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق یہ افسوسناک واقعہ اُس وقت سامنے آیا جب ایک شہری بلال حسین نے ہسپتال کے باتھ روم اور دیگر مقامات پر ایک مشکوک شخص کو خواتین کی ویڈیوز بناتے دیکھا۔ شہری نے شک کی بنیاد پر فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے مذکورہ شخص کو قابو میں لے لیا اور اس کا موبائل فون چیک کیا، جس میں متعدد خواتین کی نازیبا تصاویر اور ویڈیوز موجود تھیں۔ ملزم کو موبائل سمیت فوری طور پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
پولیس نے مقدمہ بلال حسین کی مدعیت میں درج کر لیا ہے، جس نے اپنی شکایت میں مؤقف اختیار کیا کہ وہ علاج کے لیے سول ہسپتال گوجرخان آیا تھا جہاں اس نے ایک شخص کو خواتین کے باتھ روم کے قریب مشکوک انداز میں گھومتے دیکھا۔ شک ہونے پر جب اس سے باز پرس کی گئی تو اس کے موبائل فون سے خواتین کی نازیبا ویڈیوز اور تصاویر برآمد ہوئیں، جو بظاہر ہسپتال کے باتھ روم اور دیگر مقامات پر خفیہ طور پر بنائی گئی تھیں۔
پولیس نے ملزم کی شناخت عقیل عباس کے نام سے کی ہے، جو راجگان کا رہائشی اور پولیس ٹریننگ ونگ لاہور سے وابستہ بتایا جا رہا ہے۔ حیرت انگیز طور پر ملزم اہلکار سادہ کپڑوں میں ملبوس تھا تاکہ کسی کو شک نہ ہو اور وہ بآسانی خواتین کے قریب جا سکے۔
گوجرخان پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے عقیل عباس کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 354 (خواتین کی عزت پر حملہ) اور 292 (فحش مواد کی تیاری و اشاعت) کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔ مقدمے کے اندراج کے بعد ملزم سے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
ایس پی صدر نبیل کھوکھر نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ گرفتار اہلکار کا تعلق پولیس ٹریننگ ونگ لاہور سے ہے اور اس واقعے کی مکمل چھان بین کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے گھناونے فعل میں ملوث کسی بھی شخص کو قطعاً معاف نہیں کیا جائے گا اور ملزم کو قانون کے مطابق سخت ترین سزا دی جائے گی تاکہ آئندہ کوئی اہلکار وردی کے وقار کو داغدار نہ کر سکے۔
ادھر شہری حلقوں، سماجی تنظیموں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان نے واقعے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس محکمے میں ایسے عناصر کی سختی سے چھان بین کی جائے اور اسپتالوں سمیت عوامی مقامات پر سیکیورٹی کو بہتر بنایا جائے تاکہ خواتین محفوظ رہ سکیں۔
یہ واقعہ نہ صرف پولیس کے نظامِ احتساب کے لیے لمحہ فکریہ ہے بلکہ معاشرے میں خواتین کے تحفظ پر جاری مباحثے کو مزید شدت دے گیا ہے۔ عوامی مطالبہ ہے کہ ایسے واقعات میں ملوث مجرموں کو نہ صرف نشانِ عبرت بنایا جائے بلکہ ادارہ جاتی اصلاحات بھی فوری نافذ کی جائیں۔