یہ سارے پارسا چہرے میری تسبیح کے دانے ہیں،
کیا مقدمہ درج کرنے سے انصاف مکمل ہوگیا،سخت احتساب کرنا ہوگا
راولپنڈی کے بڑے کہاں سو گئے،فون کال لینا بھی گوارا نہیں کرتے
نازیبا ویڈیو کس کو دی گئیں معاملے کی تہہ تک جانا ہوگا کیاشہیدوں کے شہر کی خواتین معاف کریں گی؟
تجزیہ ،شہزاد قریشی
بلوچستان کے ایک سردار کی عدالت کے فیصلے پر خاتون کے بارے میں ابھی سینہ کوبی کر رہے تھے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد سے 30 کلومیٹر شہر گوجرخان جس کو شہیدوں اور غازیوں کا درجہ حاصل ہے وہاں کی سینکڑوں خواتین کی نازیبا ویڈیوز بنانے والے پولیس اہلکار اور ایک ٹیچر کو بلیک میل کرنے والے پولیس اہلکار کی دو ایف آئی آرز سامنے آنے پر سر شرم سے جھک گیا پنجاب اور بالخصوص راولپنڈی پولیس کے اعلی افسران جو کسی نہ کسی اعلی شخصیت کی سفارش پر تعینات ہیں ایک سوالیہ نشان ہے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان بلا شبہ پولیس اور عوام کے درمیان دوستی کا رشتہ بنانے کے لیے لاتعداد اقدامات کر رہے ہیں جبکہ اس سلسلے میں وزیراعلی پنجاب مریم نواز بھی روزانہ کی بنیاد پر اقدامات کر رہی ہے حیرانگی اس بات پر ہے کہ جس ہسپتال میں یہ شرمناک واقعہ ہوا اس ہسپتال میں 32 سی سی ٹی وی کیمرے موجود ہیں کہا جاتا ہے کہ 26 کیمرے عرصہ دراز سے خراب ہیں اور چھ عدد کیمرے ٹھیک ہیں ضلعی ہیلتھ افسران پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ وہ کس قدر ذمہ دار ہیں اور اپنی وزیراعلی کے حکم پر وہ کس قدر عمل کرتے ہیں،

مقامی پولیس کی حالت یہ ہے کہ انہوں نے دو پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر کے شام کو جیل بھیج دیا تفتیش کرتے کہ وہ اہلکار عورتوں کی نازیبا ویڈیو بنا کر اتنی بڑی تعداد میں کس کو دیتا تھا؟ کوشش کے باوجود کہ آر پی او راولپنڈی اور سی پی او راولپنڈی کا اس سلسلے میں موقف لیا جائے لیکن دونوں ذمہ داران افسران فون کال ہی کسی کی نہیں سنتے تاہم نہ جانے راولپنڈی کو کس کی نظر کھا گئی جرائم کے حوالے سے بھی راولپنڈی کی خبریں اعلی پولیس افسران کے لیے سوالیہ نشان ہیں؟ اگر گوجرخان کے اس شرمناک واقعہ کو لے کر ایف آئی اے سائبر کرائم وزیراعلی پنجاب سپریم کورٹ آف پاکستان دیگر ذمہ داران ریاست کو نوٹس لینا چاہیے اس تحصیل کی ماؤں نے ملک و قوم کی خاطر اپنے بیٹوں کو شہید کروایا اور شہید ہو رہے ہیں کیا اس کا صلہ یہ ہے کہ اس تحصیل کی ماؤں بیٹیوں کی نازیبا ویڈیو بنائی جائیں؟ وہ بھی ایک سرکاری ہسپتال میں جو علاج معالجہ کے لیے دور دراز دیہات سے گوجرخان شہر کے سرکاری ہسپتال کا رخ کرتی ہیں.

افسوس صد افسوس اس پر جتنا ماتم کیا جائے وہ کم ہے معاملے کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے انکوائری متعلقہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی راولپنڈی اور متعلقہ ضلع کے ڈاکٹرز کی زیر نگرانی نہیں ہونی چاہیے سی ایم پنجاب انکوائری ٹیم دوسرے اضلاع کی ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کے ڈاکٹرز کی تشکیل دے کر صاف اور شفاف انکوائری کروانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں محکمہ پولیس راولپنڈی کے اعلی افسران اور محکمہ ہیلتھ کے افسران کہ اس دلخراش واقعہ کو لے کر بقول شاعر
یہ سارے پارسا چہرے میری تسبیح کے دانے ہیں
نظر سے گرتے رہتے ہیں عبادت ہوتی رہتی ہے

Shares: