ایک اوورسیز پاکستانی ملنے آئے تو کہنے لگے کہ”پنڈ وسیا نئیں، اُچکے پہلے آگئے“ کے مترادف ابھی آئی فون 17مارکیٹ میں نہیں آیا اور فلاں سرکاری صاحب نے ڈیمانڈ کردی ہے کہ آپکا کام ہوجائے گا لیکن ستمبر میں لانچ ہونے والے آئی فون کے نئے ماڈل کے دو موبائل سب سے پہلے اسے ملنے چاہئیں۔میرے لیے یہ کوئی حیرانی والی بات نہیں تھی کیونکہ سرکاری افسران کی ایسی ڈیمانڈ روٹین ہے۔اس حوالے سے گذشتہ سال میں نے ایک کالم بھی لکھا تھا۔
حفیظ سینٹر لاہور میں ایک دوست کی موبائل شاپ پر جانے کا اتفاق ہوا تو وہ ٹیلیفونک کال پر کسی کے ترلے کررہا تھا کہ سر ایسا نہیں ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے اس وقت ڈالر ریٹ کم تھا اس دفعہ آپ کا شکوہ دور ہوجاتا ہے۔دکاندار نے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے سپیکر فون اوپن کردیا۔ دوسری طرف موجود شخص کہہ رہا تھا کہ فلاں لاہور پوسٹڈ ہے تو تم اسکو زیادہ ریٹ دیتے ہو، اس نے اچھی پوسٹنگ کروا لی تو وہ مجھ سے بڑا افسر نہیں ہوگیا۔ میرا دوست جواباً صفائیاں پیش کرتے ہوئے نہیں نہیں سر ایسی بات نہیں آپ کے ساتھ تو دس سال کا تعلق ہے کبھی ریٹ میں فرق نہیں کیا۔ کال ختم ہوئی تو اس نے نمبر دکھایا تو سنئیر پولیس آفیسر کی کال تھی۔
دکاندار کا کہنا تھا کہ یہ روز کا مسئلہ ہے چند دن قبل ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو شکوہ کررہے تھے کہ تم پولیس والوں کو زیادہ ریٹ دیتے ہو، یاد رکھنا دکان ہم ہی سیل کرتے ہیں پولیس والے نہیں۔مذید انکشاف کیا کہ اسسٹنٹ کمشنر، اے ایس پی لیول کے افسران ماہانہ پانچ سے سات جبکہ اے ڈی سی آر، ایس پی، ڈی پی او، ڈی سی، ڈی جی، آرپی او، کمشنر اور سیکرٹری لیول کے افسران بسا اوقات ایک مہینے میں پچاس سے زائد باکس پیک آئی فون بیچنے کیلئے اپنے قابل اعتبار ہول سیل ڈیلر سے رابطہ کرتے ہیں لیکن ایک بات پر حیرت ہے کہ ان کے اندر کی غربت وہیں کی وہیں رہتی ہے اور چار سے پانچ ہزار کیلئے بھی دکان بند کروانے کی دھمکیاں لگاتے ہیں۔کرپٹ افسران گفٹ ملے آئی فون ہول سیل میں بیچتے ہیں تو ایماندار افسران کیلئے سرکاری تنخواہ میں گزارے لائک انڈرائیڈ لینا بھی مشکل ہے۔
پاکستان شدید معاشی مسائل کا شکار ہے لیکن”آگ لگے بسی میں ہم ہیں اپنی مستی میں“ کے مصداق بیوروکریسی اپنی لوٹ مار میں مصروف ہے۔ پہلے پہل سول بیوروکریسی میں اچھے پڑھے لکھے اور خاندانی لوگ آیاکرتے تھے، عام سرکاری ملازمین کی نسبت سی ایس ایس اور پی ایم ایس افسران کا رویہ اور کردار قابل تقلید و تعریف ہوتا تھا۔ نئے افسران کی اکثریت سیلفی سٹار اور ٹک ٹاکرز بنے ہوئے ہیں۔وقار و سائستگی خواتین آفیسرز کی پہچان ہوتی تھی جبکہ نئی خواتین آفیسرز خاص طور پر پولیس کی خواتین ماڈلنگ میں ٹی وی اینکرز اور فلم سٹارز کو مات دے رہی ہیں۔
وزراء اور چیف منسٹر کے درباری بنے ”باس از آلویز رائٹ اور یس باس“ کی تسبیح کرتے افسران جی حضوری کے چیمپئین ہونے کی وجہ سے ہر حکومت میں ”فٹ“ ہو جاتے ہیں اور نہ صرف من چاہی پوسٹنگ لیتے ہیں بلکہ فیصلہ سازوں کی آنکھ کا تارہ بن کر صوبے اور ڈیپارٹمنٹ کے لئے ”اچھے افسران“سلیکٹ کرنے کی ٹھیکیداری بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ ”یو آر مائی انسپائریشن“ کے نعرے لگاتے چاپلوس اور ”کنسیپٹ کلئیر“ افسران کو”ملٹی ٹاسک اچیور اور ڈوئیر“ کا نام دے کر حکمرانوں کے دربار میں پیش کرکے اہم پوزیشن دلوائی جاتی ہیں۔ اہم کام نکلوانے کیلئے چھوٹے افسران کو بڑی سیٹوں پر تعنیات کیا جاتا ہے۔ اگر کسی آفیسر کو ایمانداری کا بخار ہو تو بخار اتارنے کیلئے او ایس ڈی کردیا جاتاہے۔ یہی وجوہات ہیں کہ دیانت دار افسران ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ ایماندار افسران کی اہم جگہوں پر یہ کہہ کر تقرری نہیں کی جاتی کہ”اسکو افسری نہیں آتی اسے رہنے دو“۔ ”بندہ کمپیٹنٹ ہے لیکن زیادہ ایماندار ہے سسٹم کے ساتھ چلنے والا نہیں“۔
افسران نے بیوروکریسی کا مطلب ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔انکی نت نئی اوچھی حرکتوں سے بیوروکریٹ گالی بنتا جارہا ہے۔ شدید کرپٹ افسران کی سب سے بڑی نشانی ہے کہ کال رسیو نہیں کرتے کہ کہیں کسی سفارشی کال پر مفت میں کام نہ کرنا پڑ جائے۔ باس اور طاقتور کے سامنے لیٹ جاتے ہیں جبکہ عام لوگوں کے سامنے انتہائی سخت گیر۔صرف اسی کو اپنے دفتر میں ویلکم کرنا پسند کرتے ہیں جو آتے ہوئے تحائف لاتا ہو اور امراء کے گھروں میں اس لیے حاضری لگواتے ہیں کہ ان کے ڈرائنگ روم سے کونسی قیمتی چیز دیکھ کہ کہہ سکیں کہ ابھی کل ہی انٹرنیٹ پر دیکھی لیکن اس لیے آرڈر نہیں کی کہ آن لائن چیز سہی نہیں ملتی، تب تک تعریف کرتے رہتے ہیں جب تک میزبان یہ نہ کہہ دے کہ یہ چیز اٹھا کر صاحب کی گاڑی میں رکھ دو۔
نئے افسران اپنے جیسی بچگانہ فہم و فراست کے جوانوں کے ساتھ رات گئے والی محافل میں مگن ہوتے ہیں اور وہاں یہ انتہائی تفاخر سے بتا رہے ہوتے ہیں کہ تیرا دوست اے سی /اے ایس پی لگ گیا ہے جو مرضی کرے۔ واقعی جو مرضی کرتے پھر رہے ہیں بغیر نمبر پلیٹ گاڑیوں میں مارا ماری کررہے ہوتے ہیں۔
افسران کے”کنسیپٹ کلئیر“ ہیں اور مائنڈ سیٹ ہے کہ پیسا ہی سب کچھ ہے اس لیے دونوں ہاتھوں سے اور جھولیاں بھر بھر کے سمیٹنا ہے۔
اس سے قبل کہ بیوروکریٹ شہرت کی لت میں پاگل ہوجائیں، قوم کے پیسے سے سرکاری افسران کی ذاتی تشہیر اور شخصیت پرستی کو فوری طور پر روکنے کے احکامات جاری کیے جائیں کیونکہ اس غلط روایت سے سرکاری افسران سارا دن نت نئے اشتہارات بنانے اور دکھانے کے سوا کچھ نہ کرتے اور نہ سوچتے ہیں۔
ملک سلمان
maliksalman2008@gmail.com