جس مملکت و ریاست میں جرائم ہو گا وہاں خوشحالی نہیں ہو گی وہاں بدامنی اور غربت کا راج ہو گا
جدید سعودی عرب کا باضابطہ قیام 1932 میں ہوا اس سے قبل سعودی عرب پسماندہ اور بدامن ترین ملک تھا کہ جہاں چوری،ڈکیتی قتل،شراب نوشی اور قبائلی جھگڑوں سے ہلاکتیں تک عام بات تھیں
حتی کہ دنیا بھر سے جانے والے عازمین حج کو بھی لوٹ لیا جاتا تھا لوگ مقدس فرض حج کیلئے جانے سے کترانے لگے تھے کیونکہ تمام راستے غیر محفوظ ہو گئے تھے قانون و ریاست نام کی کوئی چیز موجود ہی نا تھی
1927 سے پہلے موجودہ جدید مملکت سعودی عرب کو حجاز مقدس اور نجد کے نام سے جانا جاتا تھا جو کہ ایک انتہائی بدامن اور مالی طور پر کمزور ترین علاقہ تھا جہاں سینکڑوں قبائل آباد تھے جن کے درمیان مسلسل جھگڑے،لوٹ مار اور قتل و غارت گری عام تھی حتی کہ ہر قبیلہ اپنا الگ قانون رکھتا تھا جبکہ مشترکہ مرکزی قانون و حکومت کا نام و نشان تک نا تھا
اسی باعث ہی ان لوگوں کے ہاتھوں حاجیوں کے قافلے بھی لٹ جایا کرتے تھے
سلطنت عثمانیہ کا کنٹرول محض مکہ،مدینہ اور جدہ تک ہی محدود تھا
پورے خطے میں کوئی مالیاتی نظام موجود نا تھا اور زیادہ تر قبائل بدوی زندگی شدید غربت میں گزارتے تھے
بارشیں نا ہوتیں تو کئی کئی سال تک قحط رہتا لوگ بھوکے مرتے تھے کیونکہ آبپاشی کا باقاعدہ نظام نا تھا جس کی وجہ مرکزی حکومت کا نا ہونا تھا
1902 میں شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود نے ریاض پر قبضہ کر لیا  اور 1913 میں عثمانیوں سے احسہ کا علاقہ لے لیا اور 1924 سے 1925 تک مکہ،مدینہ اور طائف پر کنٹرول کر لیا اور 1926 میں مشترکہ طور پر شاہ عبدالعزیز بادشاہ حجاز مقدس و نجد مقرر ہوئے
جرائم کو کنٹرول کرکے مملکت کو جدید بنانے،امن و امان و خوشحالی کی خاطر
1927 سے 1930 تک سعودی ریاست نے مختلف علاقوں جیسے کہ نجد،حائل،عیسر اور حجاز وغیرہ میں، چوری،ڈکیتی اور قتل و شراب نوشی کے ملزمان کو سزائیں دیں
ایک اندازے کے مطابق 1000 سے زائد لوگوں کو پھانسیاں دی گئی یا پھر تلوار سے گردن اتاری گئی
لوٹ مار اور قتل و غارت گری میں اخوان تحریک سے تعلق رکھنے والے ملزمان بھی شامل تھے جن میں سے بیشتر کا تعلق مختلف قبائل سے تھا ان کو بھی قتل کیا گیا
سعودی عرب کا امن برباد کرنے والے یہ لوگ گروہ بنا کر  قافلوں کو لوٹتے تھے اور ریاستی اقتدار کو چیلنج کرتے تھے
ایسے فسادی اور ملک دشمن عناصر کہ جن کی وجہ سے امن و امان برباد ہو جائے اور جینا مشکل ہو جائے ان لوگوں بارے قرآن مجید کچھ اس طرح بیان فرماتا ہے
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیۡنَ یُحَارِبُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا اَنۡ یُّقَتَّلُوۡۤا اَوۡ یُصَلَّبُوۡۤا اَوۡ تُقَطَّعَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَرۡجُلُہُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ اَوۡ یُنۡفَوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ ؕ ذٰلِکَ لَہُمۡ خِزۡیٌ فِی الدُّنۡیَا وَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ
جو اللہ تعالٰی سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا انہیں جلا وطن کر دیا جائے یہ تو ہوئی انکی دنیاوی ذلت اور خواری اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے
جبکہ ایسے لوگوں کیلئے حدیث رسول ہے
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں پر حملہ کر دیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ پیر کاٹ دیئے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں
بحوالہ سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث 2579
دوسری روایت میں ہے کہ وہ پیاس کے مارے تڑپتے رہے لیکن کسی نے ان کو پانی نہیں دیا یہاں تک کہ وہ مر گئے یہ آنکھیں پھوڑنا اور پانی نہ دینا تشدد کے لئے نہ تھا بلکہ اس لئے تھا کہ انہوں نے کئی کبیرہ گناہ کئے تھے، ارتداد، قتل، لوٹ پاٹ، ناشکری وغیرہ
بعضوں نے کہا کہ یہ قصاص میں تھا کیونکہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا، غرض بدکار، بدفعل، بے رحم اور ظالم پر ہرگز رحم نہیں کرنا چاہئے، اور اس کو ہمیشہ سخت سزا دینی چاہئے تاکہ عام لوگ تکلیف سے محفوظ رہیں، اور یہ عام لوگوں پر عین رحم و کرم ہے کہ ظالم کو سخت سزا دی جائے، اور ظالم پر رحم کرنا غریب رعایا پر ظلم ہے
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي:إسناده
دیکھا جائے تو آج پاکستان میں بھی حجاز مقدس اور نجد جیسے برے حالات ہیں
قتل و  غارت گری،ڈکیتی،زنا،شراب نوشی اور لوگوں کی زمینوں پر قبضے کرنا جواء کھیلنا اور کھلوانا،غریب اور کمزور لوگوں پر ظلم کرنا
عام ہو چکا ہے جس کے باعث امن و امان کی صورتحال خراب ترین ہو چکی ہے
عام اور کمزور و غریب لوگوں کا جینا مشکل تر ہو چکا ہے
امن و امان قائم رکھنے اور جرائم کو ختم کرنے کیلئے ویسے تو پولیس و دیگر ادارے پہلے سے موجود ہیں مگر ان کی کارکردگی نا ہونے کے برابر ہے اسی لئے پنجاب گورنمنٹ نے اب امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے اور جرائم کو ختم کرنے کیلئے فروری 2025 میں پولیس آرڈیننس 2025 کے تحت کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ یعنی سی سی ڈی کا قیام عمل میں لایا ہے
سی سی ڈی کی حتمی منظوری اپریل میں ہوئی جبکہ اس محکمے میں تقریباً 4300 اہلکار ہیں جو جدید ترین سہولیات سے آراستہ ہیں
فی الوقت تو سی سی ڈی کی کارکردگی اچھی ہے خدانخواستہ اگر اس کی کارکردگی بھی پنجاب پولیس کی طرح رہی اور لوگوں کو  وڈیروں،جاگیرداروں اور سیاستدانوں کے کہنے پر قتل کیا گیا تو پھر امن و امان درست ہونے کی بجائے مذید خراب ہو گا
فی الوقت سی سی ڈی کی اچھی اور اعلی سطحی کاروائیوں سے جرائم پیشہ لوگ  ڈر کر توبہ تائب کر رہے ہیں اور بیشتر بھاگ بھی گئے ہیں
بہت سے جرائم پیشہ اور دہشت کی علامت لوگ ویڈیو کی صورت میں بیان حلفی دے رہے ہیں کہ ہم آئندہ شریفانہ زندگی گزاریں گے جو کہ ایک انتہائی خوش آئند بات ہے
اللہ کرے یہ محکمہ اسی طرح میرٹ پر کام کرے اور کسی جاگیردار،سیاست دان و وڈیرے کا آلہ کار نا بنے تاکہ امن و امان کی صورتحال بہتر ہو کر پاکستان ترقی کرے اور پاکستانی قوم بھی ایک محفوظ اور ترقی یافتہ معاشرے کا حصہ بنے
آمین








