پاکستان کا فلیگ شپ 969 میگاواٹ کا نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ گزشتہ سال پیش آنے والے شدید چٹانی دھماکے (rock burst) کے باعث مزید دو سال تک بند رہے گا۔ اس طویل بندش کی وجہ سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے اور عوام کو سستی بجلی سے محروم رکھا گیا ہے۔

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق، مئی 2024 میں زیر زمین سرنگوں میں پیدا ہونے والے ساختی نقص نے اس منصوبے کو مکمل طور پر بند کر دیا تھا۔ اس نقص کی مرمت اور منصوبے کی دوبارہ بحالی میں تقریباً دو سال کا وقت لگنے کا امکان ہے۔نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ کا آغاز جولائی 2007 میں ہوا تھا اور اسے دس سال کے اندر مکمل کر کے اگست 2018 میں فعال کر دیا گیا تھا۔ اس منصوبے پر اُس وقت کے شرح مبادلہ (105.3 روپے فی ڈالر) کے مطابق کل 500 ارب روپے (تقریباً 4.7 ارب ڈالر) کی لاگت آئی تھی، جو پاکستان کے سب سے بڑے ہائیڈروپاور منصوبوں میں شمار ہوتا ہے۔

نیلم جہلم منصوبے کی بندش سے نہ صرف بجلی کی پیداوار کم ہوئی بلکہ بجلی کی پیداوار کی لاگت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس کا براہ راست اثر صارفین کی بجلی کی قیمتوں پر پڑا ہے۔ اس کے علاوہ، ملک کے بڑھتے ہوئے گردشی قرضے میں بھی اس کی بندش نے اضافہ کیا ہے کیونکہ منصوبے کی بحالی اور نقصانات کی تلافی کے لیے مزید مالی وسائل درکار ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ نیلم جہلم منصوبے کی بندش کے باعث پاکستان کی توانائی کے شعبے کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے، خصوصاً جب ملک بجلی کی طلب بڑھانے کے لیے اضافی توانائی کے ذرائع تلاش کر رہا ہے۔ اس صورتحال نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ توانائی کے متبادل ذرائع اور حفاظتی اقدامات پر توجہ دے تاکہ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچا جا سکے۔

Shares: