لاہور(خالدمحمودخالد) بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی 31 اگست سے چین کا دورہ کریں گے جہاں وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ مودی چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ بھی بات چیت کریں گے۔

2020 میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ مشرقی لداخ کے گالوان میں دونوں ملکوں کے درمیان فوجی جھڑپوں کے بعد مودی کا یہ پہلا دورہ ہوگا ان جھڑپوں میں 20 بھارتی فوجیوں کی جانیں گئیں۔ مودی کا یہ دورہ روس سے تیل کی خریداری اور ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے نئی دہلی پر محصولات کے نفاذ کے بعد مغربی اتحادیوں کے شدید بڑھتے ہوئے دباؤ کے درمیان ہو رہا ہے۔ جب کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے بڑھتے تعلقات سے بھی بھارت کافی تحفظات رکھتا ہے۔ اس تناظر میں چین کے ساتھ تعلقات میں ایک عارضی بحالی بھی بھارت اور امریکہ کے درمیاں خلیج مزید بڑھا سکتی ہے۔ بھارت اس وقت برکس کے سربراہی اجلاس میں بھی اپنے کردار کو فروغ دینے کا خواہاں ہے کیونکہ وہ 2026 میں برکس کی صدارت سنبھالنے کی تیاری کر رہا ہے۔ برکس ایک ایسی تنظیم ہے جس میں روس اور چین شامل بھی ہیں اور اگلے سال ہونے والی سربراہ کانفرنس میں چینی صدر ژی اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کی شرکت بھی بھارت کیلئے اہم ہے۔ لیکن اس کے باوجود مودی کی ایس سی او اجلاس میں شرکت شدید اختلافات کے پس منظر میں ہوگی۔ اپریل میں پہلگام دہشت گردانہ حملے اور اس کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جھڑپوں کے بعد ایک سینئر بھارتی فوجی جنرل نے چین پر الزام لگایا کہ وہ بھارت کے خلاف پاکستان کی مدد کرتا رہا ہے۔ جون میں بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے چین کے شہر چنگ ڈاؤ میں ایس سی او کے وزرائے دفاع کی میٹنگ میں شرکت کی جہاں انہوں نے مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ اعلامیہ میں ذرائع کے مطابق دہشت گردی اور پہلگام دہشت گردانہ حملے پر بھارت کے موقف کو اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ تاہم دستاویز میں بلوچستان کا ذکر کیا گیا تھا جس کے مطابق بھارت پر پاکستانی صوبے میں بدامنی پھیلانے کا الزام لگایا گیا۔ ایس سی او سربراہ اجلاس میں مودی بھی ممکنہ طور پر دہشت گردی سے نمٹنے کے بارے میں بھارت کا موقف سامنے رکھیں گے اور مبینہ سرحد پار دہشت گردی پر سخت موقف اختیار کریں گے۔ ان کا خطاب پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کی متوقع موجودگی میں مئی کے تنازع کے فوراً بعد ہوگا۔ چین اور پاکستان کی دوستی کے پس منظر میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ بھارتی وزیر دفاع کے مشترکہ اعلامیہ پر دستخط نہ کرنے کی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے مبینہ طور پر سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی پر اتفاق رائے حاصل کرنے کی بھارت کی ترجیح کو آئندہ سربراہی اجلاس میں مناسب حمایت نہیں مل سکتی ہے۔ اس معاملے پر چین کی پالیسی بھی واضح ہے۔ ایران کا موقف بھی ابہام کا شکار ہے کیونکہ بھارت نے جون میں شنگھائی تعاون تنظیم کے بیان سے لاتعلقی اختیار کر لی تھی جس میں تہران پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کی گئی تھی۔ ان تمام خدشات کے باوجود نئی دہلی شنگھائی تعاون تنظیم میں ایک فعال رکن کے طور پر شرکت کر رہا ہے جب کہ بھارت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کے وسیع ترازسر نو تجدید کی عکاس ہے۔ یہ کواڈ، ایس سی او، برکس، جی7 کے ساتھ کثیر الائنمنٹ کی مودی حکومت کی حکمت عملی کو ظاہر کرتا ہے۔ مزید برآں یہ بھارت کو چین، روس، ایران اور کچھ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ اعلیٰ ترین سیاسی سطح پر بات چیت جاری رکھنے کا موقعہ بھی مل سکتا ہے۔

Shares: