کمیٹی کمیٹی کا کھیل
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
پاکستان میں آج کل ایک عجیب سی کیفیت طاری ہے۔ حکومتی اعلانات کی گونج ہوا میں بلند ہوتی ہے، لیکن جب بات عوام تک پہنچتی ہے تو وہ محض ایک سراب بن کر رہ جاتی ہے۔ آج کی ایک بڑی خبر یہ ہے کہ "پروٹیکٹڈ کیٹیگری کے دائرہ کار میں توسیع پر غور، حد 301 یونٹ رکھنے کی تجویز” زیرِ بحث ہے۔ یہ خبر سن کر ایک لمحے کے لیے دل کو تسلی ہوئی کہ شاید اب غریب اور متوسط طبقے کو کچھ ریلیف ملے گا، لیکن جیسے ہی اس خبر کو موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا تو یہ محض ایک اور بلند بانگ دعویٰ لگا،جو حقیقت سے کوسوں دور ہے۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کچھ عرصہ قبل اعلان کیا تھا کہ بجلی کے نرخوں میں کمی کی جائے گی۔ یہ خوشخبری موبائل فون پر کال ملنے پر ان کی آواز میں سنائی گئی کہ بجلی سستی کر دی گئی ہے۔ لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس نکلے۔ نیا سلیب سسٹم متعارف کر کے بجلی کے بلز میں اضافہ کر دیا گیا، جس نے غریب اور متوسط طبقے کے خون کے آخری قطرے کو بھی نچوڑ لیا۔ اسی طرح چینی کی قیمتوں پر نوٹس لیا گیا، کمیٹیاں بنائی گئیں، دکھاوے کی کارروائیاں کی گئیں اور اعلانات کی حد تک چینی سستی ہو گئی۔ لیکن بازاروں میں چینی اب بھی 200 روپے فی کلو سے کم پر دستیاب نہیں۔ بناسپتی گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتیں عالمی منڈی میں کم ہوئیں، لیکن ایک رپورٹ کے مطابق مافیا نے اس کمی کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچنے دیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ایک بار کسی چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے تو وہ پھر کبھی کم نہیں ہوتی، چاہے عالمی منڈی میں اس کی قیمت چند سینٹ ہی کیوں نہ رہ جائے۔
اب بات کرتے ہیں پروٹیکٹڈ کیٹیگری کی توسیع کی تجویز کی۔ خبر کے مطابق وزیراعظم نے پروٹیکٹڈ صارفین کے حوالے سے شکایات کا نوٹس لے کر ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے، جو پروٹیکٹڈ کیٹیگری کی حد کو 201 یونٹ سے بڑھا کر 301 یونٹ کرنے پر غور کرے گی۔ موجودہ نظام کے تحت اگر کوئی صارف 201 یونٹ بجلی استعمال کر لیتا ہے، تو وہ اگلے چھ ماہ تک پروٹیکٹڈ کیٹیگری سے باہر ہو جاتا ہے اور اسے ماہانہ تقریباً 5 ہزار روپے اضافی بل ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسی زیادتی ہے جس نے غریب اور متوسط طبقے کے صارفین کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اراکینِ اسمبلی نے بھی اسے صارفین کے ساتھ ناانصافی قرار دیا ہے کہ صرف ایک یونٹ زیادہ استعمال کرنے کی وجہ سے اگلے چھ ماہ تک اضافی بل ادا کرنا پڑے۔
یہاں وزیراعظم شہباز شریف کے لاڈلے اور ہونہار وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری کی پھرتیوں کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ ان کی غیر دانشمندانہ اور عوام دشمن پالیسیاں مسلم لیگ (ن) کے لیے نوشتہء دیوار ثابت ہو رہی ہیں۔ اویس لغاری کی پالیسیوں نے بجلی کے صارفین کو شدید مشکلات سے دوچار کیا ہے، خاص طور پر پروٹیکٹڈ کیٹیگری کے حوالے سے 201 یونٹ والی سلیب، جو وزارتِ توانائی اور نیپرا کی جانب سے جان بوجھ کر نافذ کی گئی، ایک ایسی پالیسی ہے جس نے غریب صارفین کی کمر توڑ دی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی نہ صرف صارفین کے لیے ظالمانہ ہے بلکہ اس سے حکومتی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ اویس لغاری کا سیاسی ماضی بھی گواہ ہے کہ وہ جہاں ہری گھاس دکھائی دیتی ہے، وہاں جمپ لگانے میں دیر نہیں کرتے۔ ان کی پارٹی بدلنے کی تاریخ اس بات کی عکاس ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفادات کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ بات حیران کن نہیں کہ ان کی موجودہ پالیسیاں بھی عوام کے بجائے ذاتی یا گروہی مفادات کو تحفظ دینے کی کوشش کا نتیجہ لگتی ہیں۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیٹی اس معاملے کا تفصیلی جائزہ لے گی اور کابینہ کو اپنی سفارشات پیش کرے گی۔ تجویز ہے کہ پروٹیکٹڈ کیٹیگری کی حد کو 200 یونٹ سے بڑھا کر 300 یونٹ کیا جائے، یا کم از کم اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ 201 یونٹ استعمال کرنے کی صورت میں صرف اسی ماہ کے لیے نان پروٹیکٹڈ شرح لاگو ہو، نہ کہ اگلے چھ ماہ تک۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اویس لغاری کے وزیرتوانائی ہوتے ہوئے، بننے والی یہ پالیسیاں اور کمیٹیاں کیا واقعی عوام کو ریلیف دے سکیں گی؟ یا یہ بھی محض ایک اور دکھاوا ثابت ہوگا؟
یہ تمام صورتحال ایک بڑے سوال کو جنم دیتی ہےکہ کیا یہ سب کچھ واقعی غریب آدمی کو ریلیف دینے کے لیے کیا جا رہا ہے، یا یہ محض ایک اور دکھاوا ہے؟ موجودہ حکومت دعوے تو بڑے بڑے کرتی ہے، لیکن جب بات عمل کی آتی ہے تو عوام کو وہی پرانی مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 200 یونٹ بجلی استعمال کرنے والا صارف عموماً کم آمدنی والا ہی ہوتا ہے۔ ایسے صارفین کے لیے بجلی کے بلز میں اضافہ کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ اگر حکومت واقعی غریب آدمی کو ریلیف دینا چاہتی ہے، تو اسے نہ صرف پروٹیکٹڈ کیٹیگری کی حد بڑھانی چاہیے بلکہ اس نظام کو بھی شفاف بنانا چاہیے تاکہ کوئی صارف غیر ضروری طور پر متاثر نہ ہو۔
اس کے علاوہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کے پیچھے جو مافیا کام کر رہا ہے، اس کے خلاف ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔اور مافیا کو دی جانے والی مفت بجلی فوری طور پر بندکی جائے ،تاکہ اس کا بوجھ عام آدمی پر نہ پڑے، یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اور دیگر متعلقہ ادارے صارفین سے زیادتی کر رہے ہیں۔ اگر ایک صارف ایک ماہ میں 201 یونٹ استعمال کر لیتا ہے، تو اسے چھ ماہ تک سزا دینا کہاں کا انصاف ہے؟ اسی طرح، چینی، گھی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کے پیچھے بھی ایک منظم مافیا کام کر رہا ہے، جو عالمی منڈی میں کمی کے باوجود پاکستانی صارفین کو ریلیف نہیں دیتا۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ صرف کمیٹیاں بنانے اور اعلانات کرنے کی بجائے عملی اقدامات کرے۔ پروٹیکٹڈ کیٹیگری کی حد کو 301 یونٹ تک بڑھانا ایک اچھا قدم ہو سکتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بجلی کے بلز کے نظام کو سادہ اور صارف دوست بنانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے مافیا کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ اگر حکومت یہ سب کرنے میں ناکام رہتی ہے، تو عوام کا اعتماد مزید کم ہوگا، اور وہ اعلانات جو خوشخبری کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں، محض ایک مذاق بن کر رہ جائیں گے۔ اویس لغاری کی پالیسیوں نے مسلم لیگ (ن) کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، اور اگر انہوں نے اپنی روش نہ بدلی، تو یہ پارٹی کے لیے سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔
آخر میں، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستانی عوام اب اس "کمیٹی کمیٹی کے کھیل” سے تنگ آ چکے ہیں۔ ہر مسئلے کا حل کمیٹیاں بنا کر نکالنے کا رواج محض ایک سراب ہے، جس کی تعبیر شاید کبھی نہ ملے۔ اگر عوام کو یقین ہوتا کہ یہ اعلانات اور کمیٹیوں کی رپورٹیں حقیقت میں تبدیل ہو جائیں گی، تو شاید وہ خوشی سے مر جاتے۔ لیکن فی الحال، یہ سب کچھ ایک مذاق لگتا ہے، جس سے عوام کا اعتماد مزید متزلزل ہو رہا ہے۔ وزیراعظم صاحب، اب کمیٹیوں کا یہ کھیل ختم ہونا چاہیے۔ عوام کو حقیقی ریلیف دینے کا اعلان کریں، جس پر فوری عملدرآمد ہو اور عوام کو ریلیف ملتا ہوا نظر آئے۔