پنجاب آرٹس کونسل کا قیام ایک روشن خیال ثقافتی ادارے کے طور پر ہوا تھا تاکہ پنجاب کی گہری ثقافتی روایات کو محفوظ رکھا جا سکے، فنکاروں کو پروان چڑھایا جائے اور ثقافت کو فروغ دیا جائے۔ لیکن آج اس ادارے کی صورتحال اس کے قیام کی ابتدائی امیدوں سے کہیں مختلف ہے۔ پنجاب آرٹس کونسل ایک ایسا ثقافتی ڈاکخانہ بن چکا ہے جہاں پرانی روایات، سیاسی سازشوں اور ذاتی مفادات نے ادارے کی شان و شوکت کو مدھم کر دیا ہے۔
پنجاب آرٹس کونسل تقریباً پچاس سال پرانا ادارہ ہے، جو کہ پنجاب کی ثقافت کا گہوارہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس ادارے نے ابتدا میں پنجاب کے مختلف فنون، ادب، موسیقی اور تھیئٹر کو فروغ دیا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی حکمرانی سیاسی مفادات کے ہاتھوں میں آ گئی۔ ادارے کے بیساکھی پچاس سال کی عمر اس کے لیے ایک ثقافتی ورثہ کے بجائے ایک بوجھ ثابت ہو رہی ہے۔ابتدائی دور میں ادارے نے کئی بڑے فنکاروں اور ادیبوں کو پروان چڑھایا، مگر جیسے جیسے وقت گزرا، سیاسی مداخلتیں بڑھتی گئیں اور ادارہ اپنی اصل پہچان کھانے لگا۔ مختلف ادوار میں ادارے کے افسران اور ملازمین کی بھرتیاں سیاسی سفارشات اور غیر قانونی طریقوں سے کی گئیں، جس نے ادارے کی سالمیت کو نقصان پہنچایا۔
پنجاب آرٹس کونسل کا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی تھئیٹر کا چلنا ہے۔ ادارے کے اندر سیاسی رہنما، مختلف وزارتوں اور دفاتر کے نام نہاد افسران نے قبضہ جما رکھا ہے، جو ادارے کو اپنے ذاتی یا پارٹی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب آرٹس کونسل کی دیواریں اب سیاسی سازشوں، رقعے کی بھرتیوں اور نجی منافع کے لیے میدان بن گئیں۔مثال کے طور پر 2019-2020 کے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے بھرتی سکینڈل نے ادارے کی شہرت کو مٹی میں ملا دیا۔ ایسے معاملات جہاں میرٹ کا تقدس پامال کیا گیا، ادارے کی ثقافتی ساکھ کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ اس کے علاوہ، غیر متعلقہ اور نااہل افراد کی ملازمتوں میں بھرتی نے کام کے معیار کو بھی متاثر کیا۔پنجاب آرٹس کونسل میں داخلی چپقلشیں اور ذاتی مفادات کی جنگیں ادارے کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔سرکاری حکومتی ادیبوں،فنکاروں اور ادبی رنگیلوں نے پنجاب آرٹس کونسل سے نکلی لاہور آرٹس کونسل میں بھی خوب حکومتی منجن بیچا ایک بار تو منجن کا نام ناروے پڑ گیا جہاں غائبی اور رقعوں کی بھرتی کا سلسلہ لاہور آرٹس کونسل کا خاصہ رہا وہیں محل وقوع نے فیض اور جالب کو روساء سے بغلگیر کیا مگر استاد دامن اور سائیں اختر لہوری روساء کی بیٹھکوں میں سما نہ سکے اور نہ ہی حکومتی دربار انکے الفاظ کی تاب لاسکتے ہیں۔
روایتوں کا امین اوپن ائیر تھئیٹر باغ جناح، پنجاب آرٹس کونسل جہاں کبھی صادقین تو کبھی شاہ ہمدان بھی براجمان رہے وہیں ثمن راۓ کے عہد میں داخل ہوتے ہی اسکے خدوخال بھی سنورتے ہیں شخصی چکی پیستے افسر سانس لیتے ہیں وقت گزرتا ہے تو رقعے کے جعلی سیاسی بھرتیوں کا شور اور اونچا ہوتاہے، جہاں ادارے کے کچھ ذمہ دار افسر اور ملازمین ادارے کی بہتری کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں، وہیں کئی لوگ سیاسی تحفظات کی بنیاد پر ادارے کو نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں۔مثلاً رضا رضوان جیسے افسران نے کرونا کے دوران ادارے اور ثقافت کو بچانے کی کوشش کی، مگر اندرونی چپقلشوں اور سیاسی رکاوٹوں نے ان کے کام کو مشکل بنا دیا۔ ادارے کے کچھ لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لیے ادارے کی بنیادی اقدار کو پامال کرتے رہے، جس سے ادارے کی ساکھ متاثر ہوئی۔
رانا تنویر ماجد کے دور میں پنجاب آرٹس کونسل نے سیاسی مفادات کو ثقافت پر فوقیت دی۔ انہوں نے ادارے کو اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے استعمال کیا اور اپنے افسران کو مکمل آزادی دی کہ وہ ثقافتی سرگرمیوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلائیں۔ اس دوران ادارے میں سیاسی تھئیٹر نے زور پکڑا اور ثقافت کو ایک سیاسی اوزار میں تبدیل کر دیا گیا۔شاہ ہمدان کے دربار کی حمایت میں ادارے نے خود کو سیاسی حلقوں کے حوالے کر دیا، جہاں قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں اور ثقافت کی عزت کو پامال کیا گیا۔ ایسے حالات میں جہاں ادارے کے اندرونی نظام کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی، وہاں بیرونی عناصر نے بھی اس ثقافتی ادارے پر حملے تیز کر دیے۔
دوسری جانب پلاک میں بلال کی بہادر مدبر رفیق بینش نے ہمیشہ اپنی عاجزی سے بلال کی سخت گیری پر چہ مے گوئیوں کا جواز ہمیشہ دیا۔پھر جامعہ پنجاب میں غیر قانونی بھرتی کے چھوٹےکلیدی کردار کے بعد رانا تنویر ماجد کا عہد ہمارے سامنے ہے جہاں سیاسی بقاء کے لئے ایندھن کے طور پر رانا تنویر ماجد نے بغیر شرط کی خود کو اور اپنے افسران کو سیاسی تھئیٹر کے مذبح خانے اور ثقافتی سپرمیسی کے لیے پیش کیا۔ساندل بار کے اس سپوت نے اپنی بار کاتو بھرم رکھا ہی مگر دوسری طرف کمیٹی چوک سے بھی وارد خصوصی نشست کو بمعہ افسر بے دریغ ملکہ کوہسار کی کونسل میں ڈپٹی ڈائریکٹر کی رہائش بطور ریسٹ ہاؤس ہفتوں تک مفت دئیے رکھی اجازت دی اور بدلے میں کیا ملا کہ ہمدان کے پارسا نے ہر موقع پر حیران کن طور سیاسی تھئیٹر کو ثقافت پر فوقیت دی سیاسی زہد زدہ عناصر کو اندھیرے میں رکھا اور فیوض و برکات کا سلسلہ جاری رکھا مگر راناتنویر ماجد حملہ آور ہو کر نجس کیسے ہوا جس نے افسروزاہد کے معاملات پر شاہ ہمدان کے کہنے پر پٹی باندھے رکھی قانون کی دھجیاں دربار ہمدان میں اڑنے دیں البتہ ثقافت کی عصمت دری پر کسی طاہر و زاہد کی عفت دری نہ ہونے دی۔اندر بیٹھےبھیڑیوں کے لیۓ عباسیوں کے میوزیم کو پناہ گاہ بنایا افسر کے لئے تھئیٹر سے سرکاری وظیفے اکٹھے کرنےوالے بلند اقبال عناصر کو تطہیر کے لئے گوشہ طاہر بھیجا۔
پنجاب آرٹس کونسل میں غیر قانونی بھرتیاں اور سیاسی سفارشات کی وجہ سے ادارے میں میرٹ کا نظام مفقود ہو گیا ہے۔ گریڈ بیس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی سفارشات کو جانچنے کے لیے غیر قانونی کمیٹی قائم کی گئی، جس کی سربراہی گریڈ سترہ کے سیکشن افسر کے پاس ہے۔ یہ خود ادارے کی بے توقیری ہے کہ اعلیٰ سطح کے افسروں کو بھی اس نظام کے تابع ہونا پڑتا ہے۔ایسے ماحول میں جہاں ادارے کے اندر بنیادی اصول و ضوابط کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں، وہاں ادارے کی اصل شناخت کھو جاتی ہے۔ ملازمین کی شفاف بھرتیاں نہ ہونا، غیر متعلقہ افسران کا آنا جانا، اور ادارے کے اختیارات کا زوال پنجاب آرٹس کونسل کے زوال کا سبب بن چکا ہے۔
پنجاب آرٹس کونسل کے پچاس سال مکمل ہونے کے باوجود یہ ادارہ آج بھی ایک نامکمل اور مخدوش شکل میں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ زائد العمر اور غیر قانونی بھرتیاں، سیاسی مداخلت اور ادارے میں سیاسی تھئیٹر کا تسلط ہے۔ اس ادارے کو حقیقی معنوں میں ترقی دینے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی مداخلت کو مکمل طور پر ختم کیا جائے اور ادارے کو خودمختاری دی جائے۔ملازمین کی بھرتیاں مکمل میرٹ پر مبنی ہوں، اور غیر قانونی عمل کو روکنے کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں۔ادارے کے تمام افسران اور ملازمین کو ثقافت کی حقیقی خدمت کا جذبہ دیا جائے، نہ کہ سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جائے۔ثقافتی پروگرامز اور تھیئٹر کو سیاسی اقتدار سے آزاد کیا جائے تاکہ پنجاب کی حقیقی ثقافت کو اجاگر کیا جا سکے۔ادارے کے اندر شفافیت، جوابدہی اور معیار کو بلند کرنے کے لیے جدید اصلاحات متعارف کرائی جائیں۔
پنجاب آرٹس کونسل آج ایک ایسا ادارہ ہے جو ثقافت کے بجائے سیاسی تھیئٹر کا مرکز بن چکا ہے۔ اس کی اصل پہچان اور ثقافتی عظمت کو بحال کرنے کے لیے سخت اصلاحات اور شفافیت کی اشد ضرورت ہے۔ اگر اس ادارے کو عوام کی حقیقی خدمت کرنی ہے تو سیاسی دخل اندازی کو ختم کرکے اس کی خودمختاری کو یقینی بنایا جانا چاہیے، تب ہی پنجاب کی ثقافت ایک بار پھر روشن اور زندہ ہو سکے گی۔