قوموں کی تاریخ میں کچھ ایسے لمحات آتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے ان کے اجتماعی حافظے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ وہ مواقع ہوتے ہیں جب ایک قوم اپنے وجود، عقیدے اور نظریے کے دفاع میں سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے بے شمار معرکے ہیں جن میں وطن کے بیٹے، ایمان کی حرارت اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہو کر دشمن کے سامنے ڈٹ گئے۔ یہ معرکے صرف عسکری محاذ تک محدود نہیں بلکہ نظریاتی، فکری اور سماجی میدانوں میں بھی جاری رہے۔ انہی معرکوں کے نتیجے میں ہمارے پاس وہ گراں قدر سرمایہ شہداءو غازیان ہے، جن کی قربانیاں ہمارے آج اور آنے والے کل کی ضمانت ہیں۔
معرکہ حق” کا مطلب محض ایک جنگ نہیں بلکہ یہ ایک ایسے موقف اور جدوجہد کا نام ہے جو حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن مرحلہ بن جائے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں: ایک حق کا، جس میں قربانی اور استقامت درکار ہے، اور دوسرا باطل کا، جو وقتی سہولت اور ظاہری کامیابی فراہم کرتا ہے۔ معرکہ حق میں شریک ہونے والے افراد محض سپاہی نہیں ہوتے، بلکہ وہ حق کے نمائندے اور باطل کے سامنے جرات واستقامت اور بہادری وشجاعت کا مینار بن جاتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں 1947ءسے لے کر آج تک کئی ایسے مواقع آئے جب غازیوں اور شہیدوں نے اپنی جان، مال اور آسائش کو قربان کر کے قوم کو سربلند کیا۔
1948ءکی جنگِ کشمیر — قیامِ پاکستان کے فوراً بعد، جب کشمیر کے مسلمان بھارتی جارحیت کا شکار ہوئے، پاکستانی افواج اور قبائلی مجاہدین نے معرکہ حق میں شرکت کی اور دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام بنایا۔ 1965ءکی جنگ — جب دشمن نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا، لیکن پاکستانی افواج اور عوام نے جس دلیری سے مقابلہ کیا، وہ تاریخ کا روشن باب ہے۔ 1971ءکا دفاعی معرکہ — اگرچہ اس کے نتائج قوم کے دلوں کو غمگین کر گئے، لیکن اس معرکے میں ہمارے شہیدوں اور غازیوں کی بہادری آج بھی قابلِ فخر ہے۔ کارگل معرکہ 1999ئ— بلند و بالا پہاڑوں پر لڑنے والے جوانوں نے معرکہ حق کی نئی مثال قائم کی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ — 2001ءکے بعد سے پاکستانی افواج، پولیس اور عوام نے جس طرح قربانیاں دیں، وہ ایک طویل مگر لازوال داستان ہے ۔
پاکستان کی تاریخ کا تازہ ترین معرکہ حق 10مئی کو لڑا گیا جس میں پاکستان نے اپنے دشمن بھارت پر شاندار فتح حاصل کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ بری، بحری اور فضائی افواج کے جوانوں نے جرا¿ت و بہادری کی ایسی مثال قائم کی جس پر پوری قوم کو فخر ہے۔ اس معرکے میں وطنِ عزیز کے کئی سپوت جامِ شہادت نوش کر گئے جبکہ بے شمار جوان غازیوں کے رتبے پر فائز ہوئے۔بری، بحری اور فضائی افواج نے جس جرا¿ت، حکمتِ عملی اور برق رفتاری کا مظاہرہ کیا، اس نے دنیا بھر میں عسکری مبصرین کو حیران کر دیا۔ عالمی میڈیا نے اس کارروائی کو پاکستان کی عسکری تاریخ کا ایک درخشاں باب قرار دیا۔ بی بی سی، رائٹر اور الجزیرہ جیسے بڑے اداروں نے لکھا کہ پاکستان نے نہ صرف دفاعی حکمتِ عملی میں مہارت دکھائی بلکہ جارحانہ اقدام کے وقت بھی بین الاقوامی قوانین اور جنگی اصولوں کی پاسداری کی۔ امریکی اور یورپی دفاعی ماہرین نے اس کارروائی کو “ Precision Strike” یعنی انتہائی درست اور کامیاب حملہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جدید ٹیکنالوجی، پیشہ ورانہ تیاری اور افواج کے باہمی تعاون نے دشمن کو غیر متوقع انداز میں پسپا کر دیا۔ عرب میڈیا نے اسے امتِ مسلمہ کے لیے باعثِ فخر قرار دیا، جبکہ بھارتی دفاعی مبصرین نے بھی یہ تسلیم کیا کہ پاکستان نے اپنی عسکری برتری اور جنگی تیاری کا بھرپور ثبوت پیش کیا ہے۔ مجموعی طور پر 10 مئی کی یہ کارروائی پاکستان کی عسکری صلاحیتوں اور دفاعی عزم کی زندہ مثال ثابت ہوئی، جس نے دنیا کو باور کرایا کہ پاکستان ایک ذمہ دار اور طاقتور ملک ہے جو اپنے دفاع اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔
پاکستان کے دفاع کےلئے جانیں قربان کرنے شہیدوں اور جانیں ہتھیلی پر رکھ دشمن کے دانت کھٹے کرنے والے غازیوں کی عظیم قربانیوں اور لازوال خدمات کے اعتراف میں اسلام آباد میں ایک پروقار تقریب منعقد کی گئی جس میں صدرِ پاکستان، وزیراعظم، مسلح افواج کے سربراہان، وفاقی وزراء، معززین اور شہداءکے اہلِ خانہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک اور قومی ترانے سے ہوا۔ صدرِ پاکستان نے اپنے خطاب میں کہا کہ شہداءہماری قوم کا فخر ہیں اور ان کی قربانیاں پاکستان کی بقا و سلامتی کی ضمانت ہیں۔ غازیوں کو خصوصی اعزازات سے نوازا گیا جبکہ شہداءکے اہلِ خانہ کو تمغے اور اسناد پیش کی گئیں۔ حاضرین نے کھڑے ہو کر شہداءکو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا۔ تقریب کا اختتام دعائے پاکستان اور پاک فوج کے حق میں نعرہ تکبیر سے ہوا، جس سے ماحول جذبہ حب الوطنی سے لبریز ہو گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ غازی اور شہید — امت کی متاعِ گراں قدر ہیں ۔ اسلامی تعلیمات میں شہید کو زندہ قرار دیا گیا ہے، جنہیں اللہ کے ہاں رزق ملتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: "اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تم شعور نہیں رکھتے” (البقرہ: 154)شہید کا مقام نہ صرف آخرت میں بلند ہے بلکہ دنیا میں بھی اسے اعزاز و افتخار سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی طرح غازی وہ ہے جو معرکہ حق میں شریک ہو کر زندہ واپس آئے۔ غازی کی زندگی، ایمان و عمل کا چلتا پھرتا پیغام ہوتی ہے۔
پاکستان میں شہداءاور غازیوں کو اعزاز دینے کا ایک منظم نظام موجود ہے، جو نہ صرف عسکری سطح پر بلکہ عوامی شعور میں بھی ان کی خدمات کو اجاگر کرتا ہے۔حکومت کی جانب سے شہداءاور غازیوں کو اعزاز دینے کے کئی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب ایک قوم اپنے ہیروز کو یاد رکھتی ہے تو اس کے اندر باہمی محبت اور اتحاد پیدا ہوتا ہے۔نوجوان نسل میں وطن کے لیے قربانی دینے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔دنیا کو یہ پیغام ملتا ہے کہ پاکستان اپنے محافظوں کی قدر جانتا ہے۔معرکہ حق کے غازیوں اور شہیدوں کی خدمات کو صرف تقریبات یا اعزازات تک محدود نہیں رکھنا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے تذکرے تعلیمی نصاب میں شامل کیے جائیں — ان کے کارنامے نصاب کا حصہ بنیں تاکہ نئی نسل ان سے واقف ہو۔معرکہ حق کے غازی اور شہید وہ چراغ ہیں جو قوم کے مستقبل کو روشن کرتے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کی طرف سے ان کے لیے اعزاز و اکرام نہ صرف ان کی قربانیوں کا اعتراف ہے بلکہ ایک پیغام بھی ہے کہ یہ ملک اپنے محافظوں کو فراموش نہیں کرتا۔ ہمیں بطور قوم یہ عزم کرنا ہوگا کہ ہم اپنے شہداءو غازیوں کی قربانیوں کو صرف یاد ہی نہ رکھیں بلکہ ان کے مشن کو بھی آگے بڑھائیں — تاکہ پاکستان ہمیشہ سر بلند، محفوظ اور باوقار رہے۔

معرکہ حق کے غازیوں اور شہیدوں کو سلام ،تحریرڈاکٹر حافظ مسعود اظہر
Shares:







