وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ سیکیورٹی اداروں نے ایک مبینہ خودکش حملہ آور کو گرفتار کر کے یومِ آزادی پر ہونے والے دہشت گرد حملے کو ناکام بنا دیا،جبکہ،دہشت گردوں کی سہولت کاری میں ملوث کوئٹہ کی بیوٹمز یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عثمان قاضی کا ویڈیو بیان سامنے آیا ہے-
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 11 اگست کو کوئٹہ سے ایک خود کش حملہ آور کو گرفتار کیا، جس نے ابتدائی تفتیش میں انکشاف کیا کہ اسے خود کش حملے کے لیے بیوٹیمز یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عثمان قاضی نے تیار کیا تھابعد ازاں گرفتار بمبار کی نشاندہی پر سکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے خودکش بمبار تیار کرنے والے بیوٹیمز یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عثمان قاضی کو افنان ٹاؤن سے گرفتار کیا۔
ڈاکٹر محمد عثمان قاضی نے بتایا کہ ان کا تعلق تربت سے ہے وہیں پلا بڑھا اور انہوں نے ملک کے اچھے اداروں سے تعلیم حاصل کی، وہ کوئٹہ کی بیوٹمز یونیورسٹی میں ملازمت کر رہے تھ قائداعظم یونیورسٹی سے ماسٹرز اور پشاور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے، اور گریڈ 18 میں بطور لیکچرار تعینات ہے، اس شخص نے بتایا کہ اس کی بیوی بھی سرکاری ملازم ہےگرفتار ملزم ڈاکٹر عثمان قاضی نے تفصیل بتائی کہ 2020 میں قائداعظم یونیورسٹی کے ایک دورے کے دوران اس کی ملاقات ’ایک تنظیم‘ سے تعلق رکھنے والے 3 افراد سے ہوئی تھی، جن میں سے دو بعد میں مارے گئے، باقی 2 افراد نے اسے اس شدت پسند گروہ میں شامل کرایا اور اس کی ملاقات بشیر زئی سے کرائی۔
خیبر پختونخوا،متاثرہ علاقوں کی مکمل بحالی کو یقینی بنایا جائے،ڈاکٹرحافظ مسعود اظہر
عثمان قاضی نے بتایا کہ یہ تمام تعارف ’ٹیلی گرام‘ کے ذریعے کروائے گئے اور کوئٹہ آنے پر اس نے گروہ کی ہدایات پر 3 کارروائیوں میں سہولت فراہم کی، ڈاکٹر حبیطان اور فی خالق کی ہدایات کے مطابق گروہ کی مدد کی، ایک ایسے عسکریت پسند کو پناہ دی جو قلات میں جھڑپ کے دوران زخمی ہوگیا تھا، میں نے اسے کسی اور شخص کے حوالے کر دیا تھا اور اگلے دن وہ یہاں ریلوے خودکش دھماکے میں ہلاک ہوگیا۔
دہشت گردوں کی سہولت کاری میں ملوث،عثمان قاضی
اس نے ایک اور ایسا ہی واقعہ سنایا کہ جس شخص کو اس نے 7 سے 8 دن تک پناہ دی تھی، وہ 14 اگست کے کسی واقعے میں استعمال ہونے والا تھا، لیکچرار نے یہ بھی اقرار کیا کہ اس نے ایک پستول خریدا تھا جو سیکیورٹی فورسز اور سرکاری ملازمین کو نشانہ بنانے میں استعمال ہوا، یہ وہ کام ہیں جو میں نے کیے، یہ وہ سہولت کاری ہے جو میں نے کی، اگر دیکھا جائے تو ریاست نے مجھے اور میری اہلیہ کو عزت، وقار، نوکری سب کچھ دیا، لیکن اس کے باوجود میں نے قانون کی خلاف ورزی اور ریاست سے غداری کی، مجھے بہت زیادہ شرمندگی ہے کہ میں ان کارروائیوں میں شامل رہا اور اس پر افسوس ہے، اور اس ویڈیو کا مقصد یہ ہے کہ آنے والی نسلیں، نوجوان، یہاں کے طلبہ ان تنظیموں سے بچ سکیں جو بدامنی پھیلا رہی ہیں۔
بدین اور لوئر کوہستان میں 2 نئے پولیو کیسز رپورٹ ، رواں سال مجموعی تعداد 21 ہو گئی</a
کوئٹہ میں دیگر اعلیٰ حکام کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ 14 اگست کو خودکش حملہ آور ان معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے والے تھے، جو یومِ آزادی منا رہے تھےانہوں نے سیکیورٹی اداروں، محکمہ انسداد دہشت گردی بلوچستان اور پولیس کو صوبے کو بڑی تباہی سے بچانے پر سراہا، انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ مجید بریگیڈ کے کسی عہدیدار کو گرفتار کیا گیا، یہ پاکستان اسٹڈیز کا لیکچرار ہے، اندازہ کریں کہ کتنے بچوں کو اس نے ورغلایا ہوگا، یہ شخص دہشت گردوں کا علاج اپنے گھر پر کرواتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ منظم انداز میں پاکستان کو توڑنے کی سازش کی جارہی ہے، اس طرح پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ہماری ایجنسیاں، حکومت اور ہر کوئی پریشان ہے، اس دہشت گردی کو کچھ اور نام دیا جاتا ہے، ایسے لوگ جن کے رشتہ دار کسی عسکریت پسند تنظیم کا حصہ بنتے ہیں تو ان کے اہل خانہ کسی کو اطلاع نہیں دیتے، حالانکہ ایسے لوگ تربیت لے کر واپس گھر بھی آتے ہوں گے۔
یورپ ہمارے میزائلوں کی پہنچ میں ہے،ایران
سرفراز بگٹی نے کہا کہ اب ایسا نہیں چلے گا، ایسے لوگوں کے اہل خانہ کو حکومت کا اطلاع دینا ہوگی، ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ پورا خاندان ملا ہوا ہے، والدین اپنے بچوں پر نظر رکھیں کہ وہ کس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہے، گرفتار ملزم نے کئی انکشافات کیے ہیں، مجید بریگیڈ کئی ٹیئرز میں کام کرتی ہے، یہ لوگوں کو ورغلا کر انہیں تربیت دیتے ہیں، انہیں خودکش حملہ آور بناتے ہیں، ایک ٹیئر میں پولیس، لیویز، فورسز کے اہلکاروں کو قتل کرنے پر پیسے دیے جاتے تھے، پنجاب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو بھی ٹارگٹ کرنے پر انہیں پیسے دیے جاتے ہیں،ہم اس کے ساتھیوں تک بھی پہنچیں گے، مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے قبل ایسا تاثر بنایا گیا تھا کہ فوج اور سرمچاروں کے درمیان جنگ یا لڑائی چل رہی ہے، ہم نے ایک پورا سیل بنایا ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے ایک گرفتار شخص کا ریکارڈ شدہ بیان بھی جاری کیا، جس نے کہا کہ اس نے قائداعظم یونیورسٹی سے ماسٹرز اور پشاور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے، اور گریڈ 18 کے لیکچرار کے طور پر کام کر رہا ہے اس شخص نے مزید کہا کہ اس کی بیوی بھی سرکاری ملازم ہے۔
درخت آفات کے خلاف ڈھال اور آئندہ نسلوں کے لیے زندگی کا ذریعہ ہیں، صدرمملکت
حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں بلکہ اس کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے،محمد اورنگزیب
سرفراز بگٹی نے کہا کہ گرفتار لیکچرار کا محدود اعترافی بیان اس لیے جاری کیا تاکہ جاری تحقیقات متاثر نہ ہوں،انہوں نے نومبر 2024 کے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن بم دھماکے کا ذکر کیا، جس میں 32 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور 50 سے زائد زخمی ہوئے اور بتایا کہ گرفتار لیکچرار مبینہ طور پر اس حملے میں سہولت کاری میں ملوث تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس (لیکچرار) نے حملہ آور کو موٹر سائیکل پر بٹھایا اور ریلوے اسٹیشن کے قریب اتارا، اور اس کے بعد اسے ایک اور ہینڈلر کے حوالے کیا جو ریلوے اسٹیشن سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، بلوچستان میں شورش کے مسئلے کو بعض لوگ ’محرومی‘ سے جوڑتے ہیں، اس پر وزیراعلیٰ نے سوالیہ انداز میں کہا کہ یہ لوگ کیسے محروم ہیں؟ ملزم کی ماں اب بھی پنشن لے رہی ہے جس کا مطلب ہے وہ بھی سرکاری ملازم تھی،اس کی بیوی بھی سرکاری ملازم ہے، وہ خود گریڈ 18 کا افسر ہے، پاکستانی اسکالرشپ پر تعلیم حاصل کر کے پی ایچ ڈی کی، بھائی ریکوڈک منصوبے میں ملازم ہے، اس کا مطلب ہے وہ کسی طرح محروم نہیں تھا۔