لاہور: صوبہ پنجاب رواں مالی سال کے آغاز میں ملک کا سب سے بڑا قرض لینے والا صوبہ بن گیا ہے، جہاں صرف 38 دنوں (یکم جولائی سے 8 اگست 2025) کے دوران اسٹیٹ بینک سے 405 ارب روپے کا بھاری قرض لیا گیا۔

بلوم،پاکستان،کےمطابق،یہ قرضہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے، جو مالیاتی ماہرین کے مطابق صوبے کے معاشی ڈھانچے پر گہرے اثرات مرتب کرسکتا ہےاعداد و شمار کے مطابق سندھ نے اسی مدت میں 16 ارب، خیبرپختونخوا نے 21 ارب جبکہ بلوچستان نے صرف 13 ارب روپے کا قرضہ حاصل کیا جس کے مقابلے میں پنجاب کا قرضہ تقریباً 25 گنا زیادہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کے باعث اسٹیٹ بینک سے براہِ راست قرض نہیں لے سکتی تاہم صوبائی حکومتیں بدستور مرکزی بینک پر انحصار کررہی ہیں۔

دہلی ہائی کورٹ نے مودی کی تعلیمی اسناد عوامی طور پر ظاہر کرنے کا حکمنامہ منسوخ کر دیا

دوسری جانب پنجاب حکومت نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ 30 سال سے زائد پرانے 675 ارب روپے کے بینکی قرضوں کی ادائیگی مکمل کرلی گئی ہے جو زیادہ تر گندم کی خریداری اور سبسڈی پروگرامز سے وابستہ تھےاس اقدام کو تاریخی فیصلہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں روزانہ 25 کروڑ روپے سود کی ادائیگی کا بوجھ ختم ہوگیا ہے اور وسائل عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کے لیے دستیاب ہوسکیں گے، بشمول اپنا گھر اپنی چھٹ پروگرام جس کا مقصد سستی رہائش ہے۔

حکام کے مطابق قومی بینک کو 13.8 ارب روپے کی آخری قسط بھی ادا کردی گئی ہے اور بینکوں کی طرف سے قرض کو رول اوور کرنے کی تمام درخواستیں مسترد کردی گئی ہیں اگر یہ ادائیگی نہ کی جاتی تو پنجاب کو ماہانہ 50 کروڑ روپے کے سود کا سامنا کرنا پڑتا۔

آسٹریلیا کا ایران پر یہودی مخالف حملوں میں ملوث ہونے کا الزام، ایرانی سفیر کی ملک بدری کا حکم

دوسری جانب سرکاری ادارے بدستور خسارے میں چل رہے ہیں اور صرف اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے مزید 65 ارب روپے کے کمرشل بینکوں سے قرض لینے پر مجبور ہوگئے ہیں ان اداروں کا مجموعی واجب الادا قرض اب 2166 ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔

وفاقی حکومت نے بھی اپنے محدود دائرہ کار میں رہتے ہوئے 55 ارب روپے کی ادائیگی اسٹیٹ بینک کو کی ہے، جس سے 30 جون 2025 تک اس کے واجب الادا قرضے کم ہوکر 5269 ارب روپے رہ گئے ہیں۔

ڈیرہ غازی خان: ممکنہ سیلاب، ضلعی انتظامیہ نے این جی اوز سے تعاون طلب کر لیا

Shares: