صوبہ پنجاب میں دریاوں ستلج، راوی اور چناب میں سیلابی صورتحال نے تباہی مچا دی ہے، جس کے باعث متعدد اضلاع میں شدید سیلابی حالات پیدا ہوگئے ہیں۔
حکومت کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، 27 اور 28 اگست کو سیلاب کی تباہ کاریوں میں کم از کم 15 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ 6 لاکھ سے زائد لوگ اپنے گھروں سے محروم ہو کر عارضی پناہ گزین بن گئے ہیں۔ پاک فوج، حکومت اور پاکستان مرکزی مسلم لیگ، الخدمت فاؤنڈیشن سمیت دیگر کی جانب سے ریسیکیو و ریلیف آپریشن بھی جاری ہے،سیلاب کی وجہ سے درجنوں چھوٹے شہروں اور دیہات میں گھروں اور زرعی زمینوں کو نقصان پہنچا ہے۔سیالکوٹ، نارووال، اور لاہور کے نواحی علاقوں میں بھی پانی کی سطح میں زبردست اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔حافظ آباد کے علاقے کوٹ اسحاق میں گزشتہ پانچ گھنٹوں سے سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے افراد کو شعبہ خدمت خلق مرکزی مسلم لیگ فیصل آباد کی ٹیم نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ریسکیو کر لیا۔ متاثرین کے مطابق انہوں نے متعدد بار ریسکیو اداروں اور مقامی انتظامیہ کو اطلاع دی، مگر کوئی مدد نہ پہنچا۔ اطلاع ملنے پر مرکزی مسلم لیگ کی ریسکیو ٹیم فوری طور پر موقع پر پہنچی اور پانچ سے چھ افراد کو اس وقت ریسکیو کیا گیا جب پانی گردنوں تک پہنچ چکا تھا، بعدازاں انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا۔اس موقع پر محمد احسن تارڑ سیکرٹری جنرل پاکستان مرکزی مسلم لیگ فیصل آباد اور ناصر بٹ بھی ریسکیو ٹیم کے ہمراہ موجود تھے، جو متاثرین کو فوری امداد اور سہولیات فراہم کرنے میں پیش پیش ہیں۔
ایسے مشکل حالات میں کئی مقامی رپورٹرز، یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا کے کانٹینٹ کریئیٹرز نے پانی میں گھس کر اپنی رپورٹنگ شروع کر دی ہے۔ ان کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہی ہیں، جن میں وہ خود کو خطرے میں ڈال کر سیلاب کی شدت اور متاثرین کی حالت زار دکھا رہے ہیں۔مقامی لوگوں کی مشکلات کو اجاگر کرنے والے یہ رپورٹرز اور یوٹیوبرز سیلاب زدگان کے لیے امداد کی اپیل بھی کر رہے ہیں تاکہ حکومت اور امدادی ادارے فوری کارروائی کر سکیں۔ ان کی کوششوں سے عام لوگوں تک صورتحال کی درست معلومات پہنچ رہی ہیں، جس سے امدادی سرگرمیاں تیز ہو رہی ہیں۔
لاہور کی خاتون صحافی مہرالنساء کی ایک ویڈیو حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے، جس میں وہ سیلاب زدہ علاقے سے رپورٹنگ کرتے ہوئے نہ صرف اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں انجام دے رہی ہیں بلکہ اپنی گھبراہٹ اور خوف کا بھی کھل کر اظہار کرتی ہیں۔ ان کی یہ ویڈیو دیکھنے والوں کو فوراً ہی مشہور "چاند نواب” ویڈیو کی یاد دلا گئی، جو کئی سالوں سے انٹرنیٹ پر مزاحیہ وائرلز میں شامل رہی ہے۔
ویڈیو میں مہرالنساء کو ایک کشتی پر بیٹھے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جہاں وہ شدید پانی کے بہاؤ اور خطرناک حالات میں رپورٹنگ کر رہی ہیں۔ اسی دوران وہ گھبراہٹ میں بول اٹھتی ہیں:
"میرا دل یوں یوں کر رہا ہے!”
اسی لمحے ان کا چہرہ خوف سے تھر تھراتا ہوا نظر آتا ہے اور وہ کہتی ہیں:”میرے دل کی دھڑکن نیچے جا رہی ہے… پلیز دعا کریں، مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے!”
مہرالنسا کو اپنے ساتھیوں سمیت کشتی پر سیلابی پانی میں دیکھا گیا اور وہ لوگوں کو سیلاب کی شدت بتاتی دکھائی دیں،
ویڈیو میں مہرالنسا اپنے مخصوص انداز میں بتاتی نظر آتی ہیں کہ وہ بہت زیادہ سیلابی پانی کی وجہ سے ڈر بھی رہی ہیں اور وہ لوگوں کو بھی ہدایت کرتی ہیں کہ وہ سیلابی پانی میں نہ آئیں۔
یہ ویڈیو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک بھی خوب وائرل ہو رہی ہے، اور متعدد صارفین اسے "نیا چاند نواب لمحہ” قرار دے رہے ہیں۔
یہ ویڈیو اصل میں متعلقہ نیوز چینل نے خود یوٹیوب پر اپلوڈ کی، جس کے بعد یہ مختلف پلیٹ فارمز جیسے کہ ٹوئٹر، انسٹاگرام اور فیس بک پر بڑے پیمانے پر شیئر کی جانے لگی۔ ویڈیو کو لاکھوں افراد دیکھ چکے ہیں اور سینکڑوں تبصرے اس کے نیچے موجود ہیں، جن میں کچھ افراد صحافی کے جذباتی ردعمل کو سراہ رہے ہیں جبکہ کچھ اسے ایک نیا "میم” قرار دے رہے ہیں۔
خاتون صحافی مہرالنساء کی رپورٹنگ،سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحافی کس حد تک خطرات مول لے کر عوام تک خبریں پہنچاتے ہیں۔ جہاں ایک طرف عوامی ردِعمل ویڈیو کو مزاحیہ انداز میں لے رہا ہے، وہیں دوسری طرف یہ لمحہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ رپورٹرز کس مشکل اور خطرناک ماحول میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں "وائرل رپورٹنگ” کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے، جہاں رپورٹرز کے غیر متوقع یا جذباتی ردعمل عام عوام کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ ایسے لمحات اکثر ناظرین کو خبروں سے جُڑے رکھنے کا نیا طریقہ بن گئے ہیں۔