کیا پاکستانی بھی انڈونیشیا کے راستے پر چلیں گے؟
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بڈانی
رائٹرز کی ایک خبر کے مطابق "انڈونیشیا میں اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے خلاف شروع ہونے والا احتجاج شدت اختیار کر گیا۔ مظاہرین نے پارلیمنٹ کے نزدیک جمع ہو کر توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کیا، پارلیمنٹ کی عمارت کو بھی آگ لگا دی۔ آگ لگنے کے باعث عمارت میں پھنسے کئی مظاہرین نے کود کر جان بچائی جس کے نتیجے میں متعدد افراد کی ہڈیاں بھی ٹوٹ گئیں۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کے شیل برسائے، پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں 6 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ حکام نے کشیدگی والے علاقوں میں فوج طلب کر لی۔”

ان دنوں جب عالمی سطح پر اقتصادی عدم مساوات اور سیاسی اشرافیہ کی خود غرضی زیر بحث ہے، انڈونیشیا اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں پارلیمنٹیرینز کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ ایک حساس موضوع بن چکا ہے۔ انڈونیشیا میں ارکان پارلیمنٹ کے ہاؤسنگ الاؤنس عوام کو سڑکوں پر لے آیا، جس کے نتیجے میں پرتشدد احتجاج ہوئے اور پارلیمنٹ کی عمارتیں نذر آتش ہوئیں۔ دوسری طرف پاکستان میں پارلیمنٹیرینز، وزراء، اسپیکر، چیئرمین سینٹ اور ججز کی تنخواہوں میں اضافے پر تنقید تو ہوئی، لیکن ابھی تک کوئی بڑا عوامی احتجاج نہیں دیکھا گیا۔ یہ اضافے ایک ایسے وقت میں ہوئے جب پاکستان بدترین معاشی مشکلات کا شکار ہے اور سیلاب کی لپیٹ میں ہے، جہاں شہر اور دیہات تباہ ہو چکے، لاکھوں لوگوں کا سب کچھ دریاؤں کی نذر ہو گیا اور قومی ہنگامی حالت ہے۔آئیےانڈونیشیا اور پاکستان کی مراعات کا تقابلی جائزہ پیش لینے کی کوشش کرتے ہیں ، یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستانی اشرافیہ نے یہ ناجائز اضافے رضاکارانہ طور پر واپس کیے، اور کیا وہ عوام کو انڈونیشیا کی طرح خطرناک احتجاج کی طرف نہیں دھکیل رہے ہیں۔

انڈونیشیا میں 2024 میں ارکان پارلیمنٹ (ڈی پی آر) کے لیے ہاؤسنگ الاؤنس متعارف کرایا گیا جو ماہانہ 50 ملین روپیہ (تقریباً 3,057 امریکی ڈالر یا 8.5 لاکھ پاکستانی روپے) تھا۔ یہ الاؤنس جکارتہ کی کم سے کم اجرت (5.4 ملین روپیہ) سے دس گنا زیادہ تھا اور ارکان کی مجموعی آمدنی 100 ملین روپیہ سے تجاوز کر گئی۔ یہ اضافہ پارلیمنٹ کی رہائشی کمپلیکس بند ہونے کی وجہ سے کیا گیا لیکن اس کا اعلان اگست 2025 میں ایک حساس وقت پر ہوا، جب ملک اقتصادی بحران، مہنگائی اور بے روزگاری سے نبردآزما ہورہا تھا۔ صدر پرابوو سبیانٹو کی نئی حکومت کفایت شعاری کی پالیسیوں پر زور دے رہی تھی، لیکن یہ الاؤنس عوام کو اشرافیہ کی خود غرضی کا ثبوت لگا۔ اس اعلان نے عوامی غم و غصے کو بھڑکا دیا۔ 25 اگست 2025 کو جکارتہ میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر طلبہ، مزدوروں اور ایکٹوسٹس نے احتجاج شروع کیا، جو جلد ہی ملک گیر تحریک "انڈونیشیا گیلیپ” کا حصہ بن گیا۔ 28 اگست کو پولیس کی گاڑی نے ایک موٹر سائیکل ٹیکسی ڈرائیور افان کرنیاوان کو کچل دیا، جس کی ہلاکت نے احتجاج کو پرتشدد بنا دیا۔ مظاہرین نے مکاسر، سورابایا، بینڈنگ اور دیگر شہروں میں علاقائی پارلیمنٹ کی عمارتوں کو آگ لگائی، جس میں 6 ہلاکتیں اور متعدد زخمی ہوئے۔ پولیس نے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا، لیکن عوامی دباؤ نے بالآخر 31 اگست کو صدر پرابوو کو مجبور کیا کہ وہ الاؤنس واپس لیں اور غیر ملکی دوروں پر پابندی لگائیں۔ یہ واقعات انڈونیشیا میں عوامی طاقت اور سیاسی جوابدہی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔

دوسری طرف پاکستان کی صورتحال زیادہ پیچیدہ اور افسوسناک ہے۔ 2024 اور 2025 میں پارلیمنٹیرینز (ایم این اے اور سینیٹرز)، وزراء، اسپیکر، چیئرمین سینٹ اور ججز کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں غیر معمولی اضافہ کیا گیا۔ پارلیمنٹیرینز کی تنخواہ 218,000 روپے سے بڑھ کر 519,000 روپے (138 فیصد اضافہ) ہو گئی، جو "ممبرز آف پارلیمنٹ سیلریز اینڈ الاؤنسز (ترمیمی) بل 2025” کے ذریعے جنوری 2025 سے نافذ ہوا۔ وفاقی وزراء کی تنخواہ میں 159 فیصد اور وزراء مملکت کی 188 فیصد اضافہ ہوا، جو سب 519,000 روپے پر آ گئی۔ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کی تنخواہ 205,000 سے 1.3 ملین روپے (535 فیصد اضافہ) ہو گئی، جو مئی 2025 کے نوٹیفکیشن سے ہوا۔ ججز کے الاؤنسز بھی بڑھائے گئے، ہائی کورٹ ججز کا ہاؤس رینٹ الاؤنس 65,000 سے 350,000 روپے اور سپریئر جوڈیشل الاؤنس 342,431 سے 1,090,000 روپے، جبکہ سپریم کورٹ ججز کے الاؤنسز میں بھی اسی طرح اضافہ نومبر 2024 میں ہوا۔ یہ اضافے وزارت قانون و انصاف کے نوٹیفکیشنز اور صدر کی منظوری سے کیے گئے۔

یہ اضافے ایک ایسے وقت میں ہوئے جب پاکستان شدید اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے، جہاں مہنگائی 20 فیصد سے زیادہ ہے اور غربت بڑھ رہی ہے۔ مزید برآں گذشتہ ماہ یعنی اگست 2025 سے پاکستان بدترین سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔ کے پی کے میں بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ پلک جھپکتے ہی سب کچھ تباہ کردیا،پنجاب، سندھ اور دیگر علاقوں میں ستلج، چناب اور راوی دریاؤں کی بلند سطح نے تباہی مچائی۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق 2 ملین سے زائد افراد متاثر ہوئے، 1400 دیہات زیر آب آئے، 849 ہلاکتیں اور 1130 زخمی ہوئےجبکہ 1 ملین سے زیادہ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔ شہر جیسے لاہور ،سیالکوٹ برباد ہو چکے، زرعی اراضی تباہ اور لوگوں کے گھر، مویشی اور فصلیں سیلاب کی نذر ہو گئیں۔ یہ مون سون سے شروع ہونے والا سیلاب ستمبر 10 تک جاری رہ سکتا ہے، جو پاکستان کی آب و ہوا کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔

انڈونیشیا اور پاکستان کی مراعات کی کہانیوں میں کئی باتیں مشترک ہیں۔ دونوں ممالک نے اقتصادی بحران کے دوران مراعات بڑھائیں، انڈونیشیا میں ہاؤسنگ الاؤنس (50 ملین روپیہ، کم سے کم اجرت کا 10 گنا) اور پاکستان میں تنخواہ/الاؤنس (519,000 روپے تک، کم سے کم اجرت کا 20 گنا اور اسپیکر کی 1.3 ملین روپے)۔ دونوں میں اضافے عوامی تنقید کا باعث بنے، لیکن ردعمل میں فرق واضح ہے۔ انڈونیشیا میں عوام نے فوری اور پرتشدد احتجاج کیا، جس نے حکومت کو الاؤنس واپس لینے پر مجبور کیا۔ پاکستان میں اگرچہ سیاسی حلقوں (جیسے پی ایم ایل-این کے اندر) سے تنقید ہوئی، لیکن عوامی احتجاج ابھی تک محدود ہے۔ اہم بات یہ کہ پاکستانی اشرافیہ نے اضافے رضاکارانہ طور پر واپس نہیں کیے، نہ ہی مفت بجلی، گیس اور دیگر مراعات ترک کیں، جو غریب کے ٹیکس سے آتی ہیں۔

پاکستان کی موجودہ صورتحال خطرناک ہے۔ سیلاب نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا، جبکہ اشرافیہ کی مراعات عوام کے زخموں پر نمک پاشی ہیں۔ انڈونیشیا میں ایک ڈرائیور کی ہلاکت نے احتجاج کو بھڑکایااور پاکستان میں 849 ہلاکتیں اور لاکھوں افراد کی بے گھری اس سے بڑی وجہ فراہم کر سکتی ہے۔ اگر پارلیمنٹیرینز، اسپیکر، چیئرمین سینٹ اور ججز نے اضافے واپس نہ کیے تو عوام انڈونیشیا کی طرح سڑکوں پر آ سکتا ہے۔ مفت مراعات جیسے بجلی، گیس اور ٹریول، جو غریب کے خون پسینے سے ادا ہوتے ہیں، اشرافیہ کی بے ضمیری کو ظاہر کرتی ہیں۔

انڈونیشیا سے سبق سیکھتے ہوئے، پاکستانی اشرافیہ کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر تنخواہوں اور الاؤنسز کا اضافہ واپس لے اور مفت مراعات ترک کر کے یہ وسائل سیلاب زدگان کی بحالی پر خرچ کرے۔ انڈونیشیا نے عوامی دباؤ سے اصلاحات کیں اور پاکستان کو بھی اسی راستے پر چلنا ہو گا، ورنہ عوامی غم و غصہ پرتشدد احتجاج کی شکل لے سکتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ سیاسی کلاس عوام کی تکلیف کو سمجھے، ورنہ تاریخ بتاتی ہے کہ خاموشی ہمیشہ نہیں رہتی۔

Shares: