چین ایک ترقی یافتہ ملک ہے جسے دیکھنے کا خواب شاید بہت سے لوگوں نے دل میں بسایا ہو۔پاکستان سمیت پوری دنیا چین کی ترقی کی معترف ہے۔چائنہ ڈپلومیسی ایسوسی ایشن کی دعوت پر لاہور سے صحافیوں اور شعبہ تعلیم سے وابستہ 12رکنی وفد میں مجھے بھی چین جانے کا موقع ملا۔دورہ چین میں ہم نے بیجنگ، ینچوان، گوئیانگ اور گوانگژوکا وزٹ کیا۔
چین کے ہر شہر کی ترقی اور مثالی نظم و ضبط نے ہمیں ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا۔ روبوٹک کام سے لے کر فاسٹ ٹرین کے سفر تک ہر لمحہ ایک نیا تجربہ تھا۔
سب سے زیادہ متاثر کن پہلو وہاں کا ویسٹ مینجمنٹ سسٹم تھا، جہاں کچرے اور راکھ کو ضائع کرنے کے بجائے اینٹوں میں ڈھالا جاتا ہے تاکہ تعمیرات میں استعمال ہو سکے۔ یہ وہ سوچ ہے جو نہ صرف ماحول کے تحفظ بلکہ وسائل کے بہترین استعمال کی علامت ہے۔چین میں فیکٹریوں میں مزدور اور روبوٹ ساتھ ساتھ کام کرتے ہیں۔ ڈرائیور لیس گاڑیوں کا تجربہ بھی حیران کن تھا۔ بیجنگ سے گوانگژو کے سفر نے یہ حقیقت واضح کر دی کہ چین اپنی ٹیکنالوجی کو کس طرح عوامی زندگی میں ضم کر چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہاں کا Face Recognition System کمال کی رفتار سے کام کرتا ہے۔ اسی نظام کی بدولت جرائم کی شرح تقریباً صفر ہے۔ نہ کوئی اضافی فورسز بنائی گئیں اور نہ ہی کسی ہنگامہ آرائی کی ضرورت ہے۔ چین کی پولیس تیز ترین، قانون نہایت سخت اور خواتین کے تحفظ کو اولین ترجیح دیتی ہے۔ وہاں کسی مرد کو یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی خاتون کو اس کی مرضی کے بغیر شیک ہینڈ بھی کر سکے۔ یہ وہ فرق ہے جو چین کو مغربی معاشروں اور خاص طور پر برصغیر سے منفرد بناتا ہے۔
چینی عوام اپنے رویوں میں بھی مختلف ہیں۔ خواتین کی عزت کرتے ہیں اور دوست ممالک کے ساتھ نہ صرف حکومت بلکہ عوامی سطح پر بھی عزت و احترام سے پیش آتے ہیں۔ چین میں سیکیورٹی نظام انتہائی فول پروف اور مؤثر ہے مگر مسافروں کی عزت نفس پر کوئی حرف نہیں آتا۔ سیلاب ہو یا کوئی قدرتی آفت، چین کا سیفٹی سسٹم ہمہ وقت ہنگامی بنیادوں پر تیار رہتا ہے۔چین نے اپنی ترقی اور تہذیب کو محفوظ بنانے اور اس قدیم و عظیم ورثے کو دکھانے کے لیے ہر شہر میں شاندار میوزیم قائم کر رکھے ہیں، جن میں غربت کا میوزیم، میٹرو میوزیم اور وار میوزیم شامل ہیں۔ وہاں ہمیں 7th China-Arab States Expo میں شرکت کا موقع بھی ملا، جہاں ہم نے عرب ممالک کو چین کے ساتھ ہاتھ ملاتے دیکھا۔ یہ منظر اس بات کا اعلان تھا کہ چین تیزی سے ایک نئے عالمی مرکز کی حیثیت اختیار کر رہا ہے۔
یقیناً آنے والے دس برسوں میں چین وہ سپر پاور ہوگا جسے کوئی روک نہیں پائے گا۔ امریکہ سمیت بڑی طاقتوں کی حیثیت مدھم پڑ جائے گی اور دنیا کے ممالک خود چین کے ساتھ ہاتھ ملانے پر مجبور ہوں گے۔ پاکستان کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ اس کی دوستی ایک ایسے ملک کے ساتھ ہے جو نہ صرف ترقی کی علامت ہے بلکہ دنیا کے لیے رول ماڈل بھی ہے۔
چین کا پیغام سادہ ہے خواب حقیقت بن سکتے ہیں اگر سوچ وسیع، قانون سخت، قیادت وژنری اور عوام منظم ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھی اپنی صبح کو بیجنگ کی صبح کی طرح روشن بنا سکتے ہیں؟ اگر ہم اس رفتار سے نا چل سکے تو شاید اندھیرا ہمارا مقدر بن جائے گا۔