آج کا نوجوان ڈگریوں کا بوجھ اٹھائے نوکری کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے، دوسری طرف بے روزگاری کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے۔ والدین قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور نوجوان محفوظ مستقبل کے خواب دیکھتے دیکھتے مایوس ہو رہے ہیں،کیونکہ یہ سوچ کہ اچھی ڈگری اور اچھی نوکری ہی کامیابی کی ضمانت ہے، اب اپنا اثر کھو چکی ہے۔ بدلتے حالات بتا رہے ہیں کہ نوجوانوں کو صرف کمانا ہی نہیں بلکہ کمائی کو محفوظ اور بڑھانا بھی سیکھنا ہوگا۔ یہی مالیاتی تعلیم ہے، جو خوشحالی کا اصل دروازہ کھولتی ہے۔
مالیاتی تعلیم کا آغاز بچپن سے ہی ہونا چاہیے تاکہ ہمارے نوجوان مستقبل میں خود مختار بنیں۔ اس مقصد کے لیے والدین کا کردار سب سے اہم ہے۔ انہیں بچوں کو پیسوں کی قدر سکھانی چاہیے۔ انہیں سودا سلف خریدنے کے لیے ساتھ لے جائیں، جیب خرچ کے علاوہ اضافی پیسے دیں اور یہ ہدایت دیں کہ گھر کی ضرورت کی چیزیں خریدنے میں مدد کریں۔ یہ چھوٹی چھوٹی کوششیں بچوں میں خود اعتمادی اور عملی لین دین کا شعور پیدا کریں گی۔ اسی طرح، اسکول کے بعد کا ایک گھنٹہ ہنر سیکھنے کے لیے مختص کرنا چاہیے۔ سلائی، پلمبرنگ، الیکٹریشن، گاڑیوں کی مرمت یا فاسٹ فوڈ جیسے کاموں میں انہیں دلچسپی دلانا چاہیے۔ یہ ہنر انہیں مستقبل میں مالی طور پر مضبوط بنائیں گے۔ تعلیمی اداروں کو بھی جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح مالیاتی تعلیم کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔ یہ مضمون صرف حساب کتاب نہیں بلکہ زندگی کی عملی بصیرت بھی دیتا ہے۔
اسلام نے بھی مالی نظم و ضبط اور خودکفالت پر زور دیا ہے۔ یہ رہنمائی ہمیں نہ صرف کمانا سکھاتی ہے بلکہ اسے حکمت اور اعتدال کے ساتھ خرچ کرنے کی ترغیب بھی دیتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے: "اور ہاتھ کو اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو اور نہ ہی بالکل کھول دو کہ ملامت زدہ اور حسرت زدہ بیٹھے رہو۔” (الاسراء: 29) یہ آیت ہمیں نہ کنجوسی اور نہ ہی فضول خرچی کی تعلیم دیتی ہے۔ اسی طرح، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اوپر والا ہاتھ (دینے والا) نیچے والے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہے۔” (بخاری) یہ تعلیم خود انحصاری اور دوسروں پر بوجھ نہ بننے کی ہے۔
حقیقی مالیاتی بصیرت یہ ہے کہ اثاثہ (Asset) اور ذمہ داری (Liability) میں فرق کو سمجھا جائے۔ رابرٹ کیوساکی اپنی کتاب "Rich Dad Poor Dad” میں بتاتے ہیں کہ امیر اور غریب کی سوچ میں سب سے بڑا فرق یہی ہے۔ اثاثہ وہ ہے جو آپ کی جیب میں پیسہ ڈالے، جیسے کرائے پر دی گئی پراپرٹی یا کوئی کامیاب کاروبار، جبکہ ذمہ داری وہ ہے جو آپ کی جیب سے پیسہ نکالے، جیسے قسطوں پر لی گئی مہنگی گاڑی۔ مالی آزادی کا پہلا قدم یہی ہے کہ آپ اپنی آمدنی کا کچھ حصہ اثاثے بنانے پر لگائیں اور اپنے پیسے کو اپنے لیے کام کرنے دیں۔ یہ کوئی بڑا یا مشکل کام نہیں، آپ چھوٹی چھوٹی سرمایہ کاریوں سے بھی آغاز کر سکتے ہیں۔
آج کے ڈیجیٹل دور میں صرف ایک تنخواہ پر انحصار کرنا کافی نہیں۔ کثیر آمدنی کے ذرائع پیدا کرنا مالیاتی آزادی کا دوسرا اہم قدم ہے۔ کالج، یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم یا ملازمت پیشہ نوجوان اپنے فارغ اوقات کو اضافی آمدنی کے ذرائع میں بدل سکتے ہیں۔ بائیکیا اور ان ڈرائیو جیسی سروسز، لوگوں کے گھروں میں سولر پینل کی وائرنگ، پلمبنگ یا الیکٹریشن کا کام، یا چھوٹے پیمانے پر آن لائن بزنس شروع کرنا بہترین مواقع ہیں۔ ایلون مسک کہتے ہیں، "اگر کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہفتے میں 80 سے 100 گھنٹے کام کرنا ہوگا۔” یہ اضافی گھنٹے ہمیں اضافی آمدنی کے ذرائع بنانے کا موقع دیتے ہیں۔
آمدنی کے ذرائع بڑھانے کے ساتھ ساتھ اخراجات کو منظم کرنا بھی ضروری ہے۔ وارن بفٹ کا اصول نوجوانوں کے لیے بہترین ہے: "پہلے بچت کریں اور پھر باقی اخراجات کریں۔” یعنی اپنی آمدنی کا ایک حصہ سب سے پہلے بچت اور سرمایہ کاری کے لیے الگ کریں اور پھر باقی میں سے اپنے اخراجات پورے کریں۔ یہ سادہ سا اصول آپ کو مالیاتی نظم و ضبط سکھاتا ہے۔

نوجوانوں کے پاس سب سے بڑا سرمایہ وقت ہے، اور وقت ہی "کمپاؤنڈ انٹرسٹ” کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ اگر آج چھوٹی سرمایہ کاری شروع کی جائے تو وقت کے ساتھ یہ بڑی دولت میں بدل جاتی ہے۔ آج کل "مائیکرو انویسٹنگ ایپس” کی مدد سے چند سو روپے سے بھی سرمایہ کاری ممکن ہے۔یہاں یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ مالیاتی تعلیم محض ایک مضمون نہیں، بلکہ زندگی کا ہنر ہے۔ یہ نوجوان کو بااعتماد، خود مختار اور کامیاب بناتی ہے۔ اگر آج کے نوجوان مالی نظم و ضبط کو اپنا لیں تو وہ نہ صرف اپنی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں، بلکہ پاکستان کو بھی خوشحال اور مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب مالیاتی تعلیم کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔کیا آپ آج سے اپنی مالیاتی آزادی کی طرف پہلا قدم اٹھانے کے لیے تیار ہیں؟

Shares: