فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرتے ہوئے 9 مئی کے کیس میں اپنی سزا کو چیلنج کر دیا ہے۔

خدیجہ شاہ نے اپنے وکیل سمیر کھوسہ کے ذریعے دائر کی گئی درخواست میں مؤقف اپنایا کہ ان کا جناح ہاؤس کے قریب سپریم کورٹ کے جج کی اسکواڈ گاڑی کو آگ لگانے کے واقعے سے کوئی تعلق نہیں تھا، مجھے نہ تو انہیں ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا تھا اور نہ ہی ضمنی بیانات میں ملوث کیا گیا جب کہ ان کی موجودگی ثابت کرنے کے لیے کوئی شناختی پریڈ بھی نہیں کرائی گئی۔

دوسری جانب، کوٹ لکھپت جیل کے اندر ہونے والے ٹرائل میں 51 ملزمان میں سے 21 کو بری کر دیا گیا، 12 کو اشتہاری قرار دیا گیا جب کہ خدیجہ شاہ ان 18 افراد میں شامل تھیں جنہیں سزا سنائی گئی، انہیں حال ہی میں 5 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی گئی تھی۔

سندھ میں ضمنی بلدیاتی انتخابات کیلئے رینجرز کی خدمات طلب

خدیجہ شاہ نے اپیل میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ استغاثہ کا مقدمہ صرف 9 مئی 2023 کے بعد ان کی سوشل میڈیا سرگرمیوں پر مبنی تھاتاہم ٹرائل کورٹ نے بغیر کسی قانونی بنیاد کے ان کا مکمل آن لائن ڈیٹا کھنگالا، اور الزامات کو ’ناقابلِ اعتبار، مبہم اور غیر پائیدار‘ قرار دیا۔

اپیل میں زور دیا گیا ہے کہ فیصلہ محض ’قیاس آرائی‘ پر مبنی تھا اور اس میں کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھا جو خدیجہ شاہ کو مبینہ جرم سے جوڑ سکےان کی قانونی ٹیم نے لاہور ہائی کورٹ سے استدعا کی ہے کہ انسدادِ دہشت گردی عدالت کے 9 ستمبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں تمام الزامات سے بری کیا جائے۔

فلسطینی صدر اقوام متحدہ اجلاس میں ویڈیو لنک پر خطاب کریں گے

واضح رہے کہ خدیجہ شاہ نے 9 مئی ہنگامہ آرائی کے الزامات میں 23 مئی 2023 کو خود کو لاہور پولیس کے حوالے کردیا تھا، وہ کئی ماہ تک جیل میں قید رہیں اور سماعت کے لیے عدالت میں بھی پیش ہوتی رہیں آخر کار دسمبر 2023 میں کوئٹہ کی انسداد دہشت گردی نے انہیں ضمانت پر رہا کردیا تھاپولیس کا دعویٰ تھا کہ وہ 9 مئی کو کور کمانڈر ہاؤس لاہور پر ہونے والے حملوں کے لیے اکسانے والے افراد میں سرفہرست تھیں اور انہیں دہشت گردی اور دیگر الزامات کے تحت سرور روڈ پولیس میں درج ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا تھا۔

کراچی: 3 خواجہ سراؤں کی لاشیں برآمد، وزیراعلیٰ سندھ نے رپورٹ طلب کرلی

Shares: