اقوام متحدہ کے تحت پولیو کے خاتمے کے لیے قائم آزاد نگرانی بورڈ (آئی ایم بی) نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 37 سال کی کوششوں اور 22 ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود دنیا ابھی تک اس مرض سے مکمل نجات حاصل نہیں کر سکی۔
رپورٹ کے مطابق رواں سال پاکستان میں 26 نئے پولیو کیسز سامنے آئے ہیں، جس پر آئی ایم بی نے وارننگ جاری کی ہے کہ پرانے طریقہ کار اب مؤثر ثابت نہیں ہو رہے اور پولیو پر قابو پانے کی حکمتِ عملی ناکام ہوتی نظر آ رہی ہےاس مرض کے خاتمے کے لیے نئی حکمت عملی، مضبوط قیادت اور واضح ذمہ داری ضروری ہے، کیونکہ موجودہ نظام کئی کمزوریوں کا شکار ہے، ان میں فنڈنگ کا غیر مؤثر استعمال، ویکسینیشن پروگرام کے ساتھ ناکافی انضمام، حکومتوں کی کم دلچسپی اور کمزور احتساب شامل ہیں، جو صرف رپورٹز جاری کرتا ہے لیکن عملی نتائج نہیں دیتا۔
آئی ایم بی کے چیئرمین سر لیام ڈونلڈسن نے عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس آدانوم کو خط میں لکھا کہ دنیا اس وقت ایک نہایت مشکل مرحلے پر کھڑی ہے، وائرس کی مسلسل منتقلی، جغرافیائی سیاسی مسائل اور مالی دباؤ اس پروگرام کی کامیابی میں بڑی رکاوٹ ہیں، پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک ایک بار پھر وائرس کی زد میں آ گئے ہیں، اسی لئے اب ان دونوں ممالک میں پولیو پر قابو پانے کی ذمہ داری ڈبلیو ایچ او کے مشرقی بحیرہ روم کے ریجنل وزارتی پولیو سب کمیٹی کو منتقل کر دی گئی ہے تاکہ اسے علاقائی ترجیح بنایا جا سکے۔
دعا ملک کا انڈسٹری میں ہراسانی کا انکشاف
رپورٹ میں پاکستان کے ان دعووں پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ 2021 سے 2023 تک پولیو کی منتقلی روک دی گئی تھی،آئی ایم بی کے مطابق یہ کامیابی زیادہ تر کووِڈ-19 کی پابندیوں کی وجہ سے ممکن ہوئی، نہ کہ پولیو پروگرام کی بہتر کارکردگی کے باعث،پولیو کے عالمی مسئلے پر قابو پانے کے لیے حکومتوں کو ذمہ داری لینا ہوگی، ویکسینیشن پروگرام کو مؤثر طور پر چلانا ہوگا اور کمزور کارکردگی دکھانے والوں کو جوابدہ ٹھہرانا ہوگا۔
پیپلز پارٹی، ن لیگ کی اتحادی نہیں ہے صرف ساتھ دیتے ہیں،شرجیل میمن