پاک سعودی دفاعی معاہدہ،مسلم دنیا کے لیے مضبوط ڈھال
تحریر: سیاسی و سماجی رہنما حاجی محمد اکرم آرائیں۔
پاک سعودی دفاعی معاہدہ خطے میں نیا توازن پیدا کرے گا کیونکہ اب اسرائیل کو قطر کی طرح سعودی عرب پر حملہ کرنے سے پہلے سو بار سوچنا ہوگا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تازہ ترین دفاعی معاہدہ ایک واضح پیغام لے کر آیا ہے کہ دونوں ملک طے کرتے ہیں کہ کسی ایک پر کسی بھی جارحیت کو دونوں کے خلاف حملہ سمجھا جائے گا اور اس کا مشترکہ جواب دیا جائے گا۔ مشرقِ وسطیٰ کے مسلم ممالک اگرچہ بعض اوقات امریکہ کے دوست ممالک شمار کیے جاتے ہیں، مگر اسرائیل امریکہ کی اولین ترجیح ہے اور اپنی دفاعی پالیسی بھی امریکہ کے ساتھ مل کر ترتیب دیتا ہے، امریکہ ہر موقع پر اسرائیل کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اس لحاظ سے بعض دوستیوں کی نوعیت اس شعر کے مصداق معلوم ہوتی ہے:
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
اسلامی ممالک نے تمام تر وسائل کے باوجود اپنے دفاع کو مضبوط نہیں کیا اور اس کا فائدہ ہمیشہ امریکہ نے اٹھایا، باوجود اس کے مسلم ممالک ہی امریکہ سے مدد کی اپیل کرتے رہتے ہیں۔ امریکہ قطر کو اپنا دوست کہتا ہے اور بعض کٹھن ترین فیصلے اور حالات میں اسی کی رضامندی یا خاموشی کے باعث ہی واقعات رونما ہوتے ہیں. قطر کو بھی فلسطین کی حمایت اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے سبب مختلف حکومتوں کی طرف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی لیے ضروری ہے کہ سعودی عرب کی طرز پر مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک بھی اس معاہدے میں شامل ہوں تاکہ سب مل کر کسی بھی جارحیت کو مؤثر طور پر روکا جا سکے۔
پاک سعودی معاہدہ دفاعی ہم آہنگی اور مشترکہ روک تھام کو تقویت دے گا اور خطے کی سکیورٹی پر دوررس اثرات مرتب کرے گا۔ معاہدے میں شامل مشترکہ رویّہ سعودی عرب اور پاکستان کو ایک ایسے موقف پر کھڑا کرتا ہے جو دشمن کو طویل مدتی اور سنگین نتائج کا سامنا کرنے پر مجبور کرے گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بیرونی قوت مثلاً اسرائیل، سعودی عرب پر جارحیت کرے تو اسے نہ صرف سعودی بلکہ پاکستان کی مکمل حمایت اور ممکنہ مشترکہ ردِعمل کا بھی حساب کرناہوگا جو حملہ آور کے لیے بھاری قیمت ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ نقطۂ نظر محض ایک سیاسی بیان نہیں بلکہ ایک عملی روڈ میپ کی صورت میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ بعض رپورٹس میں معاہدے کے چند پہلوؤں میں جوہری پروگرام سے متعلق حکمتِ عملی کے امکان کا ذکر بھی زیرِ بحث آیا ہےجو بین الاقوامی سطح پر گہری سوچ و غور کا سبب بن سکتا ہے۔
اس معاہدے کے بعد خطے میں طاقت کے توازن میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے اور فوری طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی قوت سعودی عرب یا پاکستان پر حملے کا ارادہ رکھتی ہو، اسے خطرات، متوقع ردعمل اور جغرافیائی سیاسی قیمتوں کا نئے سرے سے حساب کرنا پڑے گا، خصوصاً وہی ممالک جو پہلے تیزی سے ایک واحد ہدف پر آپریشن کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ لہٰذا بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ اب اسرائیل کو قطر کی طرح سعودی عرب پر حملہ کرنے سے پہلے سو بار سوچنا ہوگا۔