معاشرہ خاندان سے بنتا ہے اور خاندان نکاح کے رشتے پر کھڑا ہوتا ہے۔ یہ رشتہ صرف دو افراد کا ساتھ نہیں ،بلکہ نسلوں کی پرورش اور معاشرتی استحکام کا ذریعہ ہے،لیکن آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ رشتہ پہلے جیسا مضبوط نہیں رہا۔ طلاق اور علیحدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات معاشرے کے سکون کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔
طلاق کے بڑھنے کی سب سے اہم وجہ صبر اور برداشت کی کمی ہے۔ معمولی باتیں جنہیں کبھی نظرانداز کر دیا جاتا تھا، اب بڑے جھگڑوں میں بدل جاتی ہیں۔ انا اور ضد کے باعث میاں بیوی بات کرنے اور مسئلہ حل کرنے کے بجائے علیحدگی کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اس رویے نے رشتوں کو کمزور اور گھروں کو غیر محفوظ کر دیا ہے۔
والدین اور رشتہ داروں کی غیر ضروری مداخلت بھی اس مسئلے کو بڑھا دیتی ہے۔ شادی کے آغاز پر ہی بیٹی کو کہا جاتا ہے کہ کسی بات پر سمجھوتا نہ کرنا اور ہر مسئلہ ہمیں بتانا، جبکہ بیٹے کو نصیحت کی جاتی ہے کہ ہر بات نہ ماننا ورنہ وقار ختم ہو جائے گا۔ یوں نئی زندگی کی بنیاد ہی اختلاف اور بے اعتمادی پر رکھ دی جاتی ہے۔ ایسے رویے رشتے کو جوڑنے کے بجائے توڑنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔معاشی دباؤ بھی کم اہم نہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری اور وسائل کی کمی نے گھروں کو سکون سے محروم کر دیا ہے۔ بعض اوقات اگر بیوی زیادہ کماتی ہے تو شوہر میں احساس کمتری پیدا ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے اعتماد کی جگہ مقابلہ بازی اور محبت کی جگہ شکوے لے لیتے ہیں۔
میڈیا اور سوشل میڈیا بھی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ڈرامے اور فلمیں ایک خیالی دنیا دکھاتی ہیں، جہاں سب کچھ حسین لگتا ہے۔ جب حقیقت سامنے آتی ہے تو نوجوان ناامیدی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چھوٹے اختلافات کو حل کرنے کے بجائے فوری علیحدگی کو ہی آسان راستہ سمجھا جاتا ہے۔اخلاقی کمزوری بھی اہم سبب ہے۔ جب ایک دوسرے کے حقوق نظرانداز ہوں، عزت اور اعتماد ختم ہو جائے اور ہر وقت اپنی انا کو ترجیح دی جائے تو رشتہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ معمولی مسائل کو بڑا بنانے کی عادت رشتے کو برباد کر دیتی ہے اور اس کا سب سے زیادہ نقصان بچوں کو ہوتا ہے جو ٹوٹے ہوئے گھر کے اثرات سہتے ہیں۔
یہ مسئلہ صرف قانون یا عدالتوں سے حل نہیں ہو سکتا۔ اصل ضرورت شعور کی بیداری ہے۔ اگر میاں بیوی برداشت، ایثار اور قربانی کو اپنا لیں اور والدین مداخلت کے بجائے تعاون کی راہ دکھائیں تو گھروں میں سکون واپس آ سکتا ہے۔ معاشرے کو بھی ایسے رجحانات کو فروغ دینا ہوگا جو رشتوں کو جوڑنے کا ذریعہ بنیں نہ کہ توڑنے کا۔اگر آج ہم نے اپنی سوچ اور رویے نہ بدلے تو آنے والی نسلیں محبت اور اعتماد کے بجائے تنہائی اور ویرانی کا سامنا کریں گی۔ یہی وقت ہے کہ ہم خاندانی نظام کو بچانے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کریں۔