موجودہ ملاقات فوجی اور سیاسی قیادت کی مشترکہ حکمت عملی کی نشاندہی کرتی ہے
فوجی اور سیاسی قیادت کا متفقہ موقف پیش کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان ایک ری سیٹ تجدید کی پالیسی اپنانا چاہتا ہے
وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم نے بہتر خارجہ پالیسی کے ذریعے پاکستان کا نقطہ نظر دنیا تک کامیابی سے پہنچایا
تجزیہ : شہزاد قریشی
پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو بہت سے اتار چڑھاؤ سامنے آتے ہیں۔ خارجہ محاذ کی اگر بات کی جائے تو پاکستانی وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم نے بہتر خارجہ پالیسی کے ذریعے پاکستان کا نقطہ نظر دنیا تک کامیابی سے پہنچایا۔ ملکی صورتحال اور امریکہ کے ساتھ مستقبل میں تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ تاہم پاکستان اب اس مقام تک پہنچ چکا ہے جہاں پر پاکستان کو امریکہ کے ساتھ دوستی کو بڑھانے میں اپنے مفادات کو سامنے رکھنا ہوگا اور امریکہ کو بھی برابری کی سطح پر نہ سہی لیکن ایک خود مختار ملک کے طور پر پاکستان کی خود مختاری کا پاس رکھنا ہوگا یہ دونوں ملکوں کے مفاد کے لیے بہتر ہوگا۔ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی امریکی صدر سے ملاقات امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ہو رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ملاقات سے قبل پاکستان اور امریکہ نے تجارتی معاہدہ طے کیا ہے جس میں امریکہ پاکستان کے تیل ذخائر کو دریافت کرنے کا معاہدہ ہے۔ پاکستان نے امریکی کمپنیوں کو کان کنی، معدنیات اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی ہے۔ ملاقات کے دوران پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا ساتھ ہونا ایک اہم اشارہ ہے یعنی پاکستان کا یہ پیغام اس کی فوجی اور سیاسی قیادت ایک متفقہ موقف پیش کرنا چاہتی ہے۔
یہ تمام عوامل مل کر اشارہ دیتے ہیں کہ پاکستان ایک ری سیٹ تجدید کی پالیسی اپنانا چاہتا ہے۔ اپنے تعلقات امریکہ کے ساتھ اور اسے علاقائی و بین الاقوامی سطح پر ایک زیادہ فعال اور متوازن مقام دلوانا چاہتا ہے۔ اگر ملاقات نتیجہ خیز ہو اور امریکہ پاکستان کے توانائی، معدنیات، انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی شبوں میں سرمایہ کاری کرے تو اس سے روزگار کے مواقعے پیدا ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ بہتر تعاون پاکستان کو بین الاقوامی انسداد دہشت گردی نیٹ ورکس کو ٹرانس نیشنل سطح پر نشانے پر لینے میں مدد دے سکتا ہے۔ انٹیلیجنس شیئرنگ بڑھ سکتی ہے مالی معاونت مل سکتی ہے تو پاکستان داخلی سلامتی کو تقویت مل سکتی ہے۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان ممکنہ طور پر امریکی گیم پلان کا حصہ بننے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ چین، بھارت، امریکہ توازن میں خود کو ایک مفید شرکت دار ثابت کرے۔ اگر امریکہ پاکستان کو ایک اہم شریک سمجھے تو پاکستان کو علاقائی سیاست میں وزن ملے گا بھارت اس ملاقات کو چین، امریکہ، پاکستان کی تاثیر میں دیکھے گا اور ممکن ہے کہ وہ سخت رد عمل دے یا بین الاقوامی فورمز پر پاکستان پر تنقید کرے۔
پاکستان کی معیشت پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے ہے۔ سرمایہ کاری حالات شفاف نہیں ہیں کچھ علاقوں میں سکیورٹی مسائل ہیں جن پر توجہ ضروری ہے۔ موجودہ ملاقات فوجی اور سیاسی قیادت کی مشترکہ حکمت عملی کی نشاندہی کرتی ہے۔ اگر عوامی یا سیاسی اپوزیشن حلقے یہ کہیں کہ اس طرح کی نتیجہ خیز ملاقاتوں میں قومی مفادات قربان کیے جائیں تو اندرونی تناؤ بڑھ سکتا ہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ ملاقات خود پاکستان کے لیے گیم چینجر بن جائے گی مگر اس میں اتنی قابلیت ضرور ہے کہ اگر موثر حکمت عملی، شفافیت، سیاسی حوصلہ، دیر پا منصوبہ بندی شامل ہو تو اس کے بہت اہم مثبت اثرات ہو سکتے ہیں۔ اگر پاکستان یہ چاہے کہ اس ملاقات کا بہتر فائدہ ہو اسے چاہیے کہ امریکی معاہدوں کی شرائط کو اچھی طرح سمجھے اپنی خود مختاری کو یقینی بنائے۔ داخلی اصلاحات، قانونی شفافیت، صوبائی مساوات اور سکیورٹی حکمت عملی کو بہتر کرے تاکہ بیرونی سرمایہ کاری محفوظ ہو اور عوام کو فائدہ پہنچے۔ علاقائی تعلقات کا خیال رکھے تاکہ یہ دکھایا جائے کہ پاکستان صرف امریکہ کا ہی اتحادی نہیں بلکہ ایک خود مختار ملک جو علاقائی استحکام کا خواہش مند ہے۔