اقوام عالم اس وقت جدید ٹیکنالوجی کی طرف رواں دواں ہے۔ پاکستان نے اگر بھارت سے جنگ جیتی جہاں پاک فوج کا کردار تھا وہاں جدید ٹیکنالوجی بھی شامل تھی۔ جس کی وجہ سے پاکستان نے بھارت کو شکست دے کر اپنے آپ کو منوایا۔ لیکن حیران کن حد تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پاکستان کی بیوروکریسی پاکستان کو غلامی کے دور میں کیوں دھکیلنا چاہتی ہے۔ آخر یہ پاکستان، جمہوریت اور عوام سے کس چیز کا بدلہ لینا چاہتی ہے۔ برطانوی راج میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا کلیکٹر کے پاس انتظامی عدالتی اور پولیس تینوں طرح کے اختیارات تھے۔ مقصد یہ تھا کہ نو آبادیاتی نظام آسانی سے چل سکے رعایہ پر قابو رکھا جائے اور بغاوتوں کو دبایا جا سکے۔ آزادی کے بعد پاکستان میں یہ نظام جاری رہا لیکن بعد میں 2001 میں پولیس آرڈر اور لوکل گورنمنٹ اصلاحات کے بعد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا کردار ختم کر دیا گیا اور عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کیا گیا۔ انگریز کا نظام بنیادی طور پر عوامی نمائندگی نہیں کرتا تھا بلکہ نو آبادیاتی کنٹرول کے لیے بنایا گیا تھا۔ پاکستان کے کچھ بیوروکریٹ یہ سمجھتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ کو دوبارہ عدالتی اختیار ملیں لیکن وکلا کی ایک بڑی تعداد اور عدلیہ کی اکثریت اس کی مخالفت کرتی ہے کیونکہ اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوتی ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ برطانیہ سمیت زیادہ تر جمہوری ممالک نے انتظامیہ اور عدلیہ کو مکمل طور پر الگ کر دیا ہے وہاں پولیس، میئر یا منتخب مقامی حکومت کے ماتحت ہے نہ کہ کسی بیوروکریٹ یا مجسٹریٹ کے۔ چیک اینڈ بیلنس کا مضبوط ڈھانچہ برطانیہ سمیت دیگر جمہوری ممالک میں بنایا گیا مجسٹریٹی نظام نو آبادیاتی اور غیر جمہوری تھا۔ پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے اداروں کی علیحدگی شفاف، احتساب اور مقامی حکومت کے نظام کو مضبوط کرنا ہوگا نہ کہ پرانا غلامی والا ڈھانچہ واپس لانا۔ نظام کی ساخت سے زیادہ عمل درآمد اور نیت کا ہے اگر پولیس اور عدلیہ کو آزاد اور جواب دے بنایا جائے تو مجسٹریٹی نظام کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔

حیرت انگیز طور پر 2024 میں مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی کا مجسٹریٹی نظام ختم کرنے کا بل دونوں ایوانوں سے پاس ہونے کے باوجود ایوان صدر جاتے ہوئے گم کر دیا گیا جس پر جتنا ماتم کیا جائے وہ کم ہے۔ پارلیمنٹ ممبران قومی اسمبلی اور سینٹ کے ممبران کو باز پرس کرنی چاہیے کہ وہ بل کہاں گیا۔ سن 1973 کے متفقہ آئین میں بھی مجسٹریٹی نظام ختم کرنے پر اتفاق ہوا مگر ہر دور میں بیوروکریسی رکاوٹیں ڈالتی رہی۔ بیوروکریسی اخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کو اور اس قوم کو جس میں ارکانِ پارلیمنٹ بھی شامل ہیں دوبارہ غلامی کے دور میں کیوں جانا چاہتی ہے۔ صوبائی اور وفاقی سطح پر تمام محکموں کی سربراہی ان کے پاس ہے اور ان محکموں کا جو حال ہے وہ ارکانِ پارلیمنٹ کو بھی معلوم ہے۔ آذاد کشمیر میں آج حالات خراب ہیں وہاں مجسٹریٹی نظام پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ سابقہ فاٹا میں ڈی سی جج ہوا کرتا تھا اور پولیس بھی تھی مگر وہاں کی آگ فوج نے اپنے خون سے بجھائی۔ سوال یہ ہے کہ مجسٹریٹی نظام وہاں کیا کرتا رہا؟ بلوچستان کا زیادہ تر علاقہ ڈی سی کے مکمل کنٹرول میں ہے مگر حالات سب کے سامنے ہیں وہاں بھی اگر پاک فوج نہ ہو تو سوچیے کہ پھر کیا ہو۔ وفاقی دارالحکومت میں بھی مجسٹریٹی نظام ہے ذرا غور سے سوچیے کہ اسلام آباد کے کیا حالات ہیں زیادہ پیچھے جائیں تو اسی مجسٹریٹی نظام کے دور میں امریکی سفارت خانے پر ایک ہجوم چڑھ دوڑا اور یہ واقعہ سن 1979 کا ہے اور 1989 کا حملہ اسی مجسٹریٹی نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سندھ اور پنجاب میں امن و امان بہت بہتر ہے کیونکہ پولیس اپنا کام کر رہی ہے اور عدالتیں اپنا کام کر رہی ہیں۔ سمجھ سے باہر ہے کہ بیوروکریسی کا ایک گروپ مزید اختیارات حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے اس سلسلے میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے جو ایک آذاد مملکت کے شایانِ شان نہیں ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ پولیس کو پروفیشنل بنائیں۔ پاکستان کے قریبی ممالک بھارت اور بنگلہ دیش کے تمام بڑے شہروں میں مجسٹریٹی نظام ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ بیوروکریسی کا گروپ اب پنجاب اور سندھ میں حملہ آور ہونے کی کوشش کر رہا ہے ذمہ داران ریاست پنجاب اور صوبہ سندھ کی حکومت اس سنگین مسئلے پر خصوصی توجہ دے۔

Shares: