تعلیم سب کے لیے، مگر غریب دور
تحریر: ملک ظفر اقبال
تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے تعلیم کو اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر رکھا اور یہی وجہ ہے کہ آج وہ دنیا میں معاشی، سائنسی اور معاشرتی میدانوں میں آگے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں تعلیم کا حق بس ایک نعرہ بن کر رہ گیا ہے۔ کتابوں اور تقاریر میں تو کہا جاتا ہے کہ "تعلیم سب کے لیے”، مگر حقیقت میں یہ سہولت غریب کے لیے دن بدن دور ہوتی جا رہی ہے۔
پاکستان میں تعلیم ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے اور کاروباری لوگ ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے بزنس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مہنگی پرائیویٹ تعلیم عام والدین کی پہنچ سے باہر ہے۔ شہروں میں اچھے معیار کے اسکول اور کالجز زیادہ تر پرائیویٹ سیکٹر میں ہیں جہاں فیسیں ہزاروں اور لاکھوں میں ہیں۔ ایک مزدور یا کم آمدنی والا والد اپنے بچوں کو ان اداروں میں پڑھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
اگر ہم سرکاری اداروں کی کارکردگی کی بات کریں تو فائلوں کی حد تک تو کامیابی حاصل ہے، مگر فیلڈ رپورٹ کے مطابق اس میں بہت کچھ جھوٹ لکھا ہوتا ہے۔ سرکاری اداروں کی زبوں حالی خود وزیرِ تعلیم بیان کر چکے ہیں کہ کس طرح سرکاری استاد سرکار کو چونا لگاتے ہیں۔ جہاں غریب کے بچے پڑھتے ہیں وہاں تعلیمی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ اکثر اسکولوں میں اساتذہ کی کمی، بنیادی سہولیات کی نایابی اور دیگر مسائل طلبہ کی تعلیم میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ کئی اسکولوں میں بجلی، پانی اور بیت الخلاء تک موجود نہیں۔
کتابوں اور اسٹیشنری کا بوجھ بھی غریب والدین کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ سرکاری اداروں میں بچوں کو بروقت کتب میسر نہیں آتیں جبکہ مہنگائی کے اس دور میں کتابیں، کاپیاں، یونیفارم اور ٹرانسپورٹ مزید بوجھ ڈال دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غریب بچے اکثر تعلیم کی بجائے مزدوری پر لگ جاتے ہیں تاکہ گھر کے اخراجات پورے کر سکیں۔ یوں تعلیم ان کے لیے خواب اور مشقت حقیقت بن جاتی ہے۔
ہمارے نظامِ تعلیم نے معاشرے کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے جس سے امیر کے بچے مہنگے سکولوں میں انگلش میڈیم تعلیم پاتے ہیں اور آگے جا کر اعلیٰ عہدوں پر قابض ہو جاتے ہیں۔جبکہ دوسری جانب غریب کے بچے یا تو سرکاری سکولوں کی کمزور تعلیم تک محدود رہتے ہیں یا غربت کی وجہ سے پڑھائی ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہی طبقاتی فرق معاشرے میں ناانصافی، احساسِ محرومی اور جرائم کو جنم دیتا ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق ریاست پر لازم ہے کہ وہ 5 سے 16 سال تک کے ہر بچے کو مفت اور معیاری تعلیم دے۔ لیکن افسوس کہ یہ شق آج تک مکمل طور پر نافذ نہ ہو سکی۔ اگر حکومت واقعی تعلیم کو سب کے لیے ممکن بنانا چاہتی ہے تو اسے:
* سرکاری اسکولوں کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنا ہوگا،
* پرائیویٹ اداروں کی فیسوں پر کنٹرول رکھنا ہوگا،
* کتابیں، یونیفارم اور ٹرانسپورٹ مفت فراہم کرنا ہوں گے،
* اور سب سے بڑھ کر والدین کو معاشی سہارا دینا ہوگا تاکہ بچے مزدوری کے بجائے اسکول جا سکیں۔
مناسب اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے والدین مجبوراً بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں بھیجتے ہیں۔ *تعلیم سب کے لیے* کا نعرہ اُس وقت حقیقت بن سکتا ہے جب غریب اور امیر کے بچوں کے درمیان تفریق ختم ہو۔ اگر غریب کا بچہ تعلیم سے دور رہے گا تو معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکے گا۔ تعلیم کو طبقاتی نہیں بلکہ قومی بنیادوں پر عام کرنا ہوگا، ورنہ یہ نعرہ صرف کتابوں اور تقریروں تک محدود رہے گا۔
آخر کب تک؟