امریکی حکومت نے اپنے زیادہ تر محکمے اور ادارے بند کر دیے، کیونکہ کانگریس اور وائٹ ہاؤس بجٹ پر کوئی معاہدہ نہ کر سکے۔

یہ 1981 کے بعد امریکہ میں 15واں شٹ ڈاؤن ہے، اور اس کے اثرات اس بار کہیں زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں۔شٹ ڈاؤن اس وقت ہوتا ہے جب بجٹ منظور نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کے غیر ضروری ادارے بند کر دیے جاتے ہیں۔ اس کا اثر سوشل سیکورٹی، نیشنل پارکس، ہوائی سفر اور دیگر خدمات پر پڑتا ہے۔ ہزاروں وفاقی ملازمین گھر بھیج دیے جاتے ہیں اور تنخواہیں معطل ہو جاتی ہیں، جب تک بجٹ منظور نہ ہو۔امریکہ کے زیادہ تر محکمے 1.7 ٹریلین ڈالر کے فنڈ پر چلتے ہیں، لیکن ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز اس پر متفق نہیں ہو سکے۔

ڈیموکریٹس چاہتے ہیں ہیلتھ کیئر کی سہولتوں کا دورانیہ بڑھایا جائے، جبکہ ریپبلکنز اس کے مخالف ہیں۔ سینیٹ نے عارضی اخراجات کے بل کو مسترد کر دیا، جس سے فنڈز ختم اور شٹ ڈاؤن شروع ہو گیا۔شٹ ڈاؤن سے7.5 لاکھ وفاقی ملازمین متاثر ہوں گے، روزانہ نقصان تقریباً 400 ملین ڈالر ہوگا۔ فوجی اہلکار، ایئر ٹریفک کنٹرولرز، ایف بی آئی اور بارڈر سیکیورٹی ادارے کام جاری رکھیں گے لیکن تنخواہیں نہیں ملیں گی۔ سوشل سکیورٹی، میڈی کیئر اور فوڈ ایڈ پروگرام وقتی طور پر چلیں گے، جبکہ عدالتیں محدود عرصے تک کام کر سکیں گی۔ چھوٹے کاروبار کے لیے قرضے اور سہولتیں رک جائیں گی۔

شٹ ڈاؤن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں اور وفاقی حکومت کے حجم میں کمی کے منصوبے سے جڑا ہے۔ ڈیموکریٹس ہیلتھ کیئر کے بغیر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، جبکہ ریپبلکن اسے سیاسی کھیل قرار دیتے ہیں۔اس بحران نے عالمی منڈیوں کو بھی ہلا دیا، وال اسٹریٹ فیوچرز گر گئے، سونے کی قیمت ریکارڈ سطح پر پہنچی اور ایشیائی مارکیٹس میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی شدت پسندی کی وجہ سے یہ شٹ ڈاؤن ماضی کے مقابلے میں زیادہ طویل ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ سب سے طویل شٹ ڈاؤن 2018-19 میں 35 دن جاری رہا۔

توشہ خانہ ٹو کیس:عمران خان نے کوآرڈینیٹر تبدیل کرنے کی درخواست دی

توشہ خانہ ٹو کیس:عمران خان نے کوآرڈینیٹر تبدیل کرنے کی درخواست دی

پاکستان اور بھارت امریکی انسانی اسمگلنگ کی لسٹ میں شامل

حماس کا امن منصوبے میں ترمیم کا مطالبہ، تحفظ کی ضمانتیں درکار

Shares: