لیبر ڈیپارٹمنٹ: مزدوروں کے حقوق کا محافظ یا سرمایہ داروں کا سہولت کار؟
تحریر: ملک ظفر اقبال

سرکاری اداروں کی جانب سے جب مزدوروں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو مزدور کے دل میں خوشی کی ایک کرن جاگتی ہے، وہ بہتر مستقبل کے خواب دیکھتا ہے کہ شاید اب اس کی تنخواہ بڑھے گی، سہولتیں بہتر ہوں گی اور زندگی آسان ہو جائے گی۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سرکاری اداروں میں ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو حکومتی اعلانات کو کبھی عملی جامہ نہیں پہننے دیتے۔ یہ ایک منظم مافیا ہے جو ہر دفتر میں اثر و رسوخ رکھتا ہے۔

آئیے آج لیبر ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی اور کردار پر نظر ڈالتے ہیں۔ پاکستان میں مزدور طبقہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کارخانے، صنعتیں اور تعمیراتی منصوبے انہی مزدوروں کے خون پسینے سے رواں دواں ہیں۔ مگر افسوس کہ جن اداروں کو مزدوروں کے حقوق کا محافظ بننا تھا، وہی آج سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کے سہولت کار بن چکے ہیں، اور ان میں لیبر ڈیپارٹمنٹ سرفہرست ہے۔

اگر لیبر ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داریوں پر نظر ڈالیں تو ان میں شامل ہیں:
×مزدوروں کی تنخواہوں اور اجرتوں کا تحفظ
×کام کے اوقات، حفاظتی اقدامات اور سہولیات کی نگرانی
×سوشل سکیورٹی اور EOBI جیسے اداروں کو فعال بنانا
×خواتین و بچوں کے حقوق کی حفاظت
×حادثات کی صورت میں معاوضہ اور سہولتوں کی فراہمی

مگر افسوس کہ یہ سب کچھ کتابوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ عملی طور پر مزدوروں کی آواز دبائی جاتی ہے اور مالکان کو قانون توڑنے کی کھلی اجازت دی جاتی ہے۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ کرپشن کی دلدل میں پھنس چکا ہے۔ انسپکشن کے نام پر افسران فیکٹری مالکان سے رشوت وصول کرتے ہیں اور اسے اپنا حق سمجھتے ہیں۔ مزدوروں کی تعداد ریکارڈ میں کم ظاہر کی جاتی ہے تاکہ سوشل سکیورٹی اور ٹیکس ادائیگیوں سے بچا جا سکے۔ لیبر قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے کے بجائے ’’سیٹلمنٹ‘‘ کا طریقہ اپنایا جاتا ہے جبکہ مزدور یونینز کو جان بوجھ کر کاغذی کارروائی میں الجھا دیا جاتا ہے تاکہ وہ غیر فعال رہیں۔

نتیجہ یہ ہے کہ یہ محکمہ مزدوروں کے تحفظ کے بجائے سرمایہ داروں کا محافظ بن چکا ہے۔ اکثر فیکٹریوں میں آج بھی مزدور کم از کم اجرت سے محروم ہیں۔ حالیہ سرکاری اعلان کے مطابق 8 گھنٹے یومیہ مزدوری پر 40 ہزار روپے تنخواہ مقرر ہے مگر بیشتر مالکان یہ تنخواہ دینے سے انکاری ہیں۔ مزدور سوشل سکیورٹی اور پنشن کے حق سے لاعلم ہیں، حادثات کی صورت میں نہ معاوضہ ملتا ہے نہ علاج، جبکہ یونین سازی کی آزادی محض کاغذوں تک محدود ہے۔

لیبر ڈیپارٹمنٹ کو ان سب معاملات کا علم ہونے کے باوجود آنکھیں بند رکھنا اس کی پالیسی بن چکی ہے۔ اس نااہلی اور کرپشن کے باعث مزدوروں کا اعتماد ریاستی اداروں سے ختم ہوتا جا رہا ہے، صنعتکار کھلے عام قوانین توڑ رہے ہیں، اور رشوت کا نظام مزدور کے استحصال کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ نتیجتاً سماجی انصاف ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ حل کیا ہے؟
سب سے پہلے لیبر ڈیپارٹمنٹ کو مکمل طور پر کرپشن فری بنایا جائے۔ مزدور تنظیموں کو پالیسی سازی میں شامل کیا جائے، قوانین پر سختی سے عمل درآمد ہو، انسپکشن سسٹم کو ڈیجیٹل اور شفاف بنایا جائے، مزدوروں کو شکایات کے لیے آسان اور فوری پلیٹ فارم فراہم کیا جائے اور کرپٹ افسران کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے۔

فی الوقت لیبر ڈیپارٹمنٹ مزدوروں کا سہارا نہیں بلکہ سرمایہ داروں کا سہولت کار بن چکا ہے۔ اگر یہی روش برقرار رہی تو نہ صرف مزدور کا استحصال بڑھے گا بلکہ معیشت بھی غیر متوازن ہو جائے گی۔ ریاست کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ترقی کی بنیاد سرمایہ دار نہیں بلکہ مزدور ہے، اور مزدور کے حقوق کا تحفظ ہی حقیقی خوشحالی کی ضمانت ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو ادارے کرپشن ختم کرنے کے لیے بنائے گئے، وہ خود کرپشن کا گڑھ کیوں بن گئے؟ کیا یہ ناسور کبھی ختم ہوگا، یا قوم کو مزید 78 سال انتظار کرنا پڑے گا؟ بہرحال، امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

Shares: