گھوٹکی(باغی ٹی وی،نامہ نگارمشتاق علی لغاری) صحافی طفیل رند حیدرانی اور بھتیجی کا لرزہ خیز قتل — ضلع ایک بار پھر صحافیوں کے لیے مقتل گاہ بن گیا
ضلع گھوٹکی ایک بار پھر صحافیوں کے لیے مقتل گاہ بن گیا ہے۔ میرپور ماتھیلو میں معروف صحافی طفیل رند حیدرانی کو مسلح افراد نے بے دردی سے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ افسوسناک طور پر واقعے کے دوران اپنے چچا کے قتل کی عینی شاہد بننے والی آٹھ سالہ بھتیجی بھی شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کی گئی، جو بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ پرانی دشمنی کا نتیجہ ہے، تاہم علاقے میں خوف و ہراس اور صحافتی برادری میں شدید غم و غصہ پھیل گیا ہے۔
واقعے کے بعد ضلعی ہسپتال میں لاشیں منتقل کی گئیں جہاں سینکڑوں شہریوں، صحافیوں اور سماجی رہنماؤں نے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے احتجاج کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ "گھوٹکی میں قانون کی رِٹ کمزور ہوچکی ہے، پولیس بے بس اور لاچار نظر آتی ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں، اس سے قبل بھی شہید نصراللہ گڈانی، شہید محمد بچل گھنیو سمیت کئی مقامی صحافی دہشت گردی، ذاتی دشمنی اور دباؤ کے باعث قتل کیے جاچکے ہیں، مگر آج تک کسی بھی قاتل کو سزا نہیں ملی۔
قتل کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے کے بعد وزیرِ داخلہ سندھ ضیاالحسن لنجار نے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی سکھر سے فوری اور تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔ وزیر داخلہ نے ہدایت دی کہ "ملزمان کو ہر صورت گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے، واقعے کی شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات یقینی بنائی جائیں۔” انہوں نے طفیل رند کے اہلِ خانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت صحافیوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی واقعے پر گہرے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ "صحافیوں پر حملے دراصل آزادیٔ صحافت پر حملے ہیں۔” انہوں نے آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ قاتلوں کی فوری گرفتاری عمل میں لائی جائے اور انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے طفیل رند کے لواحقین سے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ "حکومت مقتول صحافی کے خاندان کو انصاف دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔”
ادھر ایس ایس پی گھوٹکی محمد انور کھیتران نے جائے وقوعہ کا فوری دورہ کیا، ورثاء سے ملاقات کی اور پولیس کو ہدایت دی کہ ملزمان کی فوری گرفتاری کو یقینی بنایا جائے۔ ان کے احکامات کے بعد تھانہ میرپور ماتھیلو پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دو ملزمان عرفان ولد سبحان حیدرانی اور امام دین ولد ریاض حیدرانی کو گرفتار کر لیا۔ پولیس نے انکشاف کیا کہ مقتول صحافی کے خاندان کا حیدرانی برادری کے دیگر افراد سے زمین کے تنازع پر کئی سالوں سے جھگڑا چل رہا تھا۔ چند روز قبل اسی مقدمے میں محمد حنیف ولد محمد شریف حیدرانی نامی ایک ملزم کو بھی پولیس نے گرفتار کیا تھا، جس کے قریبی رشتہ داروں نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے طفیل رند کو قتل کیا۔
مقتول کی بھتیجی کے الفاظ "ہٹ جاؤ ادھر سے، پہلے کبھی انصاف ہوا ہے کہ اب ہوگا” لوگوں کے ذہنوں میں گونج رہے ہیں۔ یہ الفاظ نہ صرف ایک معصوم بچی کے دل کا درد ہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے مردہ ضمیر پر سوالیہ نشان ہیں کہ آخر کب انصاف ایک خواب کے بجائے حقیقت بنے گا؟
طفیل رند کی شہادت نے ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو عیاں کر دیا ہے کہ پاکستان میں آزادیٔ صحافت خطرے میں ہے۔ اگر ریاست اپنے قلم کاروں، سچ لکھنے والوں اور حق بولنے والوں کی حفاظت نہیں کر سکتی، تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ انصاف کی امید کس سے رکھی جائے؟
گھوٹکی کے صحافیوں نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ حکومتِ سندھ فوری طور پر ایک اعلیٰ سطحی جوڈیشل انکوائری کمیشن تشکیل دے، تاکہ مقتول صحافی اور اس معصوم بچی کے قاتلوں کو مثالی سزا دی جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر قاتلوں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں نہ لایا گیا تو پورا ضلع احتجاجی تحریک کا آغاز کرے گا۔
یہ واقعہ صرف طفیل رند کا قتل نہیں بلکہ انصاف، قانون اور آزادیٔ اظہار کے تصور کا قتل ہے اور جب تک اس خونِ ناحق کا حساب نہیں لیا جاتا، گھوٹکی کی فضائیں اسی سوال سے گونجتی رہیں گی:
"کیا یہاں کبھی انصاف ہوا ہے کہ اب ہوگا؟”