اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی باضابطہ طور پر نافذ ہو چکی ہے اور حکومت کی منظوری کے بعد فوجی دستوں کا انخلا معاہدے کے مطابق شروع کر دیا گیا ہے۔ تاہم اسرائیلی حکام نے واضح کیا ہے کہ بعض علاقوں میں فوجی دستے بدستور تعینات رہیں گے اور شہریوں کو ان کے قریب جانے سے گریز کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
جنگ بندی کے نفاذ کے بعد ہزاروں فلسطینی جنوبی غزہ سے پیدل غزہ سٹی کی جانب واپس جانے لگے ہیں۔ اس دوران غزہ کے الشفا اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ابو سلمیہ نے بتایا کہ اسرائیلی فوج کے انخلا کے بعد شہر سے کم از کم 33 فلسطینیوں کی لاشیں برآمد کی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ کئی لاشوں کی فوری شناخت ممکن نہیں ہو سکی، جس کے باعث انہیں الشفا اسپتال منتقل کیا گیا ہے کیونکہ غزہ میں واحد فرانزک یونٹ اسی اسپتال میں موجود ہے۔
معاہدے کے مطابق 72 گھنٹے کے اندر حماس کے قبضے میں موجود تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا، جب کہ اسرائیل میں قید تقریباً 2,000 فلسطینی قیدی اور زیرِ حراست افراد کو بھی رہائی دی جائے گی۔اسرائیلی وزارتِ انصاف نے اُن 250 فلسطینی قیدیوں کی فہرست جاری کر دی ہے جو عمر قید کی سزا بھگت رہے تھے اور اس معاہدے کے تحت رہا کیے جائیں گے۔ذرائع کے مطابق سو سے زائد قیدیوں کو مغربی کنارے (ویسٹ بینک) منتقل کیا جائے گا۔بیشتر قیدیوں کو تیسرے ممالک میں جلاوطنی کے طور پر بھیجا جائے گا۔معروف فلسطینی رہنما مروان برغوثی اس فہرست میں شامل نہیں۔دو سینیئر حماس کمانڈر، ابراہیم حامد اور حسن سلامہ بھی فہرست سے خارج ہیں۔تاہم محمود قواسْمے، جو 2024 میں دوبارہ گرفتار ہوا تھا، رہائی پانے والوں میں شامل ہے۔دیگر میں محمد زکارنہ (2009 میں ٹیکسی ڈرائیور کے قتل کا منصوبہ بنانے کا مجرم)، محمد ابو الرب (2017 میں چاقو حملے کا مرتکب)، اور ایاد ابو الرب (جہادِ اسلامی کے کمانڈر) شامل ہیں۔اسرائیل نے باہر بدر نامی قیدی کو بھی رہا کرنے پر اتفاق کیا ہے جو 2004 میں 18 اسرائیلیوں کی ہلاکت کے منصوبے میں شریک تھا۔
اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک ٹی وی خطاب میں پہلی بار اشارہ دیا کہ ممکن ہے تمام مقتول یرغمالیوں کی لاشیں واپس نہ مل سکیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت اس معاہدے کو "ضروری اور قومی مفاد” کے تحت قبول کر رہی ہے تاکہ کم از کم زندہ یرغمالیوں کی واپسی ممکن ہو۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج کے ترجمان ایفی ڈفرین نے کہا کہ فوج "کسی بھی وقت دوبارہ لڑائی کے لیے تیار” ہے اگر حماس نے غزہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی۔آج کی حماس دو سال پہلے والی حماس نہیں رہی۔ جہاں بھی ہم نے اس سے لڑائی کی، ہم نے اسے عسکری اور انتظامی دونوں سطحوں پر شکست دی ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پانے والے 20 نکاتی سیز فائر پلان کے مطابق ایک عبوری حکومت غزہ میں انتظام سنبھالے گی، جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی اپنی اصلاحاتی مہم مکمل کر کے دوبارہ کنٹرول حاصل نہ کر لے۔
سابق امریکی محکمہ دفاع کی نائب ترجمان سبرینا سنگھ نے کہا کہ امریکہ غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل کے لیے فوجی تعاون فراہم کرے گا، لیکن زمینی کارروائی میں شامل نہیں ہوگا۔انہوں نے بتایا کہ یہی یقین دہانی سیز فائر معاہدے کو حتمی شکل دینے میں “فیصلہ کن عنصر” ثابت ہوئی۔علاوہ ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پیر کے روز اسرائیل کا دورہ کریں گے۔ اسرائیلی پولیس کے مطابق ان کے دورے کے دوران ہزاروں پولیس اور بارڈر فورس اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔بین گوریون ایئرپورٹ اور یروشلم کے اوپر ڈرون اور طیاروں کی پروازوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، جبکہ متعدد مرکزی شاہراہیں بند رہیں گی۔