افغان عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کو شرکت سے روک دیا گیا۔ جمعہ کے روز افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے نئی دہلی میں افغان سفارت خانے میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ افغانستان کے تعلقات پر بات کی۔ لیکن اس پریس کانفرنس کا سب سے متنازعہ پہلو یہ سامنے آیا کہ خواتین صحافیوں کو اسے کور کرنے کی اجازت نہ دی گئی۔ امیر خان متقی جو افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پہلی بار اعلیٰ سطحی مہمان کے طور پر بھارت پہنچے تھے ان کی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کی عدم شرکت نے ایک بار پھر بھارتی میڈیا پر ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔ اہم بھارتی ٹی وی چینلز کی خاتون صحافیوں سمیت کئی غیرملکی خاتون رپورٹرز کو بھی داخلے سے روک دیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے افغان طالبان کی مردہ پالیسیوں کا تسلسل قرار دیا ہے جو اب صرف افغانستان تک محدود نہیں بلکہ سرحدوں سے باہر بھی نظر آ رہی ہے۔ ایک بھارتی خاتون صحافی نے کہا یہ صرف ایک کانفرنس کی بات نہیں بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ افغان طالبان کی سوچ اب بھی وہی ہے جو خواتین کو خاموش کرنے پر تلی ہے۔ بھارت جس نے انہیں عزت دی وہاں یہ کیسے ممکن ہوا۔ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب متقی کی بھارت آمد کو عالمی سطح پر اہم سمجھا جا رہا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے انہیں خصوصی طور پر بھارت جانے کی اجازت دی تھی۔ ایک اور بھارتی خاتون صحافی نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی حکمرانی کے بعد سے خواتین صحافیوں پر پابندیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کابل میں بھی حکومتی پریس کانفرنسوں سے خواتین کو دور رکھا جاتا ہے اور اب یہ پالیسی بھارت جیسے ملک میں بھی نظر آئی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جیسی جمہوریہ کو ایسی پالیسیوں کی مذمت کرنی چاہیے۔ متقی کا بھارت کا یہ دورہ 16 اکتوبر تک جاری رہے گا جس دوران وہ تاج محل کا بھی دورہ کریں گے اور بھارتی کاروباری برادری سے ملاقاتیں کریں گے۔ تاہم خواتین صحافیوں پر پابندی لگانے کا یہ واقعہ اس دورے کی چمک کو دھندلا دیتا ہے اور طالبان کی عالمی سطح پر تنقید کو مزید ہوا دیتا ہے۔

Shares: