کبھی کبھی قوموں پر ایسے لمحات بھی آتے ہیں جب وہ اپنے وجود، اپنی بقا اور اپنی سمت کے تعین کے لیے خود سے سوال کرتی ہیں۔ پاکستان ایک بار پھر اسی موڑ پر کھڑا ہے ، ایک ایسا موڑ جہاں دشمن صرف سرحدوں کے پار نہیں بلکہ ہمارے اندرونی امن اور یکجہتی کو بھی للکار رہا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی نعرہ ہمیں متحد کر سکتا ہے تو وہ ہے: نیشنل ایکشن پلان پر عمل اور قومی اتحاد،ترجمانِ پاک فوج کی حالیہ پریس کانفرنس میں یہی پیغام پوری وضاحت سے سامنے آیا۔سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان کے نکات قومی منشور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک ایسا منشور جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ بندوقوں سے زیادہ، ارادوں اور اتحاد سے جیتی جاتی ہے۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات نے ایک بار پھر ہمارے زخم ہرے کر دیے ہیں۔ ہمارے نوجوان شہید ہو رہے ہیں، ماؤں کے آنچل لہو سے تر ہو رہے ہیں، اور دشمن اپنی ناپاک سازشوں میں مصروف ہے۔ان حملوں کے پیچھے ازلی دشمن بھارت ہے، جو “فتنۂ خوارج” کے ذریعے وطنِ عزیز کو عدم استحکام میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کے امن کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کی حکومت کا غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی ہمارے لیے تشویش کا باعث ہے۔کیا برادر اسلامی ملک کا یہ رویہ زیب دیتا ہے کہ پاکستان کے صبر اور بارہا احتجاج کے باوجود وہ ان عناصر کو روکنے میں ناکام رہے جو پاکستانی عوام اور سیکیورٹی اہلکاروں کا خون بہا رہے ہیں؟یہ صرف پاکستان نہیں، پوری امتِ مسلمہ کا اخلاقی امتحان ہے۔

نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات صرف ایک سرکاری دستاویز نہیں بلکہ وہ آئینہ ہیں جن میں ہم اپنی کمزوریاں اور ترجیحات دیکھ سکتے ہیں۔ ان نکات پر عملدرآمد ہی وہ راستہ ہے جو پاکستان کو پائیدار امن کی طرف لے جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ پلان سیاسی ترجیحات کی بھینٹ چڑھ گیا۔ کہیں فرقہ واریت کا زہر، کہیں صوبائی تعصب کی دیوار، اور کہیں مصلحت کی دبیز تہہ نے اس پلان کی روح کو ماند کر دیا۔اب وقت آگیا ہے کہ اس بھولی ہوئی ترجیح کو ازسرنو زندہ کیا جائے۔نیشنل ایکشن پلان کو محض کاغذی خاکہ نہیں بلکہ ریاستی عزم اور عوامی اعتماد کا استعارہ بنانا ہوگا۔دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے ہمارے بہادر سپاہی اور جوان دراصل اس قوم کے وہ چراغ ہیں جو اندھیروں میں بھی روشنی بانٹتے ہیں۔ ان کی شہادتیں محض تاریخ کے اوراق نہیں بلکہ عہدِ وفا کی داستانیں ہیں۔یہ قربانیاں کسی ایک ادارے کی نہیں بلکہ پوری ملتِ پاکستان کی مشترکہ میراث ہیں۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وطن کی حفاظت کسی ایک فورس یا طبقے کی ذمہ داری نہیں ، یہ ہم سب کا اجتماعی فریضہ ہے۔

دشمن چاہے اندرونی ہو یا بیرونی، اس کا مقصد ایک ہی ہے، انتشار، خوف اور بداعتمادی پھیلانا۔ لیکن یہ قوم وہی ہے جو بارہا لہو میں نہا کر بھی سر اٹھا کر کھڑی ہوئی۔افواجِ پاکستان اور عوام آج بھی ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم جذبات سے نہیں، عزم اور تدبر سے کام لیں۔پاکستان کی سیکورٹی کی ضمانت ہماری افواج ہیں، مگر پائیدار امن کی بنیاد عوامی یکجہتی ہے۔نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد، صوبوں میں بہتر گورننس، انصاف تک عام رسائی، اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی ہی وہ راستہ ہے جو قوم کو دوبارہ اعتماد اور سکون کی فضا مہیا کر سکتا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ محض بندوقوں کی گھن گرج سے نہیں جیتی جا سکتی؛ اس کے لیے فکری بیداری، قومی شعور اور اجتماعی نظم و ضبط کی ضرورت ہے۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ "یہ وطن ہمارا ہے، اس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے” محض نعرہ نہیں بلکہ ایک عہد ہے اور یہ عہد ہم سب کو نبھانا ہے۔آج جب دشمن ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے، ہمیں اپنے گھر کے چراغ مضبوطی سے تھامنے ہیں۔یہی قومی اتحاد، یہی نیشنل ایکشن پلان پر خلوصِ نیت سے عمل، یہی سیکیورٹی اداروں کے ساتھ یکجہتی ہمارا ہتھیار ہے، ہماری ڈھال ہے، ہمارا فخر ہے۔امن کی صبح دور نہیں، بس شرط یہ ہے کہ ہم اپنی ترجیحات درست کر لیں، اور اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر ایک بار پھر متحد قوم بن جائیں،پاکستان کے دشمنوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ یہ قوم کبھی جھکنے والی نہیں، اور یہ وطن ہمیشہ اپنے شہیدوں کے لہو سے زندہ رہے گا۔ یہ وقت قوم کے اتحاد، نیشنل ایکشن پلان کے احیاء اور افواجِ پاکستان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا ہے۔ کیونکہ جب قوم اور فوج ایک ہو جائیں تو کوئی دشمن چاہے اندرونی ہو یا بیرونی، پاکستان کے امن کو پامال نہیں کر سکتا۔

Shares: