بنگلہ دیش میں ایک غیر معمولی پیش رفت سامنے آئی ہے جہاں کم از کم 15 حاضر سروس فوجی افسران کو سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ کے دورِ حکومت میں مبینہ سنگین جرائم کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔
یہ گرفتاریاں انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے جاری کردہ وارنٹ کے بعد عمل میں آئیں، جس نے کل 25 فوجی افسران کے خلاف گرفتاری کے احکامات جاری کیے ہیں۔یہ تمام کیسز اُن تین مقدمات سے متعلق ہیں جو اگست 2024 میں شیخ حسینہ حکومت کے خاتمے کے دوران ہونے والے پرتشدد عوامی احتجاج سے جڑے ہوئے ہیں۔بنگلہ دیش آرمی کے مطابق، تمام 15 افسران کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔آرمی کے ایڈجوٹنٹ جنرل میجر جنرل محمد حکیم الزمان نے صحافیوں کو بتایا“ہم نے 16 افسران کو حکم دیا تھا کہ وہ آرمی ہیڈکوارٹر میں رپورٹ کریں۔ ان میں سے 15 نے جواب دیا۔ ایک افسر نے رپورٹ نہیں کی۔”انہوں نے مزید وضاحت کی کہ چارج شیٹ میں کل 25 نام شامل ہیں۔ ان میں 9 افسران ریٹائر ہو چکے ہیں، ایک افسر ریٹائرمنٹ سے قبل چھٹی پر ہے، جب کہ 15 افسران حاضر سروس ہیں۔ قانون براہِ راست اُن پر لاگو ہوتا ہے جو اب بھی سروس میں ہیں۔ لہٰذا 15 + 1 افسران کو فوجی تحویل میں لانے کا حکم دیا گیا ہے۔ انہیں 8 اکتوبر تک ڈھاکا کنٹونمنٹ رپورٹ کرنے کی ہدایت تھی
چیف پراسیکیوٹر محمد تاج الاسلام نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام گرفتار افسران کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے اور باقاعدہ ٹرائل چلایا جائے۔پراسیکیوشن کی جانب سے کل 28 افراد کے خلاف فردِ جرم داخل کی گئی ہے جن میں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ،23 فوجی افسران (حاضر اور سابق دونوں)شامل ہیں۔
فوجی ترجمان کے مطابق، آرمی کو ابھی تک وارنٹ کی اصل کاپی موصول نہیں ہوئی، تاہم فوج آئین اور فوجی قواعد کے مطابق عمل کرے گی۔ترجمان نے کہافوجی ضابطوں کے مطابق جن افسران پر الزامات ہوں، انہیں ابتدائی طور پر فوجی تحویل میں لیا جاتا ہے۔ حتمی کارروائی عدالتی فیصلے کے بعد ہی کی جاتی ہے۔ یہ طریقہ گزشتہ 54 سال سے فوجی روایت کا حصہ ہے۔
ایک افسر، میجر جنرل کبیر احمد، جو سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کے ملٹری سیکرٹری رہ چکے ہیں، نے تاحال فوجی احکامات پر عمل نہیں کیا۔ذرائع کے مطابق،وہ ڈی جی ایف آئی (DGFI) کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔اُن کے خلاف انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل میں علیحدہ تحقیقات جاری تھیں۔