سرکاری افسران اور بیوروکریسی میں مذہبی رسم و رواج کو زور و شور سے منانے اور ہر وقت مذہبی گفتگو کا منجن بیچنے والوں میں اکثریت اپنی کرپشن اور نااہلی کو چھپانے کیلئے مذہبی ٹچ کو ”فیس سیونگ ٹول“ استعمال کرتے ہیں۔چاہے کوئی بھی فرقہ ہو، مذہبی ٹچ ہر طرح کی کمیونٹی میں بکتا ہے اس لیے سب سے کارآمد طریقہ واردات کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
مذہبی ٹچ کی جعل سازیاں، مذہب اور فرقوں کا پرچار کرنا قابلیت نہیں بلکہ اس حلف کی خلاف ورزی ہے جس میں یہ عہد کیا گیا تھا کہ سرکاری فرائض میں مذہب، فرقہ اور رشتہ داری کو ترجیح نہیں دینی بلکہ میرٹ اور انصاف کرنا ہے۔
اصل گیم تو پارٹی گروپ کی ہے۔ جہاں ساری طبقاتی تقسیم ختم ہے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس، پولیس سروس آف پاکستان، پی ایم ایس اور دیگر سروس گروپ کی باہمی عداوت کی بجائے اس بزم(پارٹی گروپ) میں برابری اور بھائی چارے کا عظیم مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ سخت گیر اور معزز افسران کی کہانی لاہور، کراچی اور اسلام آباد کی رقاصاؤں کی زلفوں اور قدموں کی چھنکارکے گرد گھومتی ہے، حسین زلفوں کے اسیر ہونے والے بڑے ناموں کے چھوٹے کرتوت سن کر یہ چکڑ چوہدری نما مخلوق انتہائی حقیر لگنے لگتی ہے۔
منشیات کے استعمال اور دیگر حرکات پر”اہم ادارے“سے نکالا گیا بچہ بھی صوبائی سول سروس میں آچکا ہے اور ناصرف خود منہ کالا کرتا پھرتا ہے بلکہ دیگر افسران کا سہولت کار بھی بنا ہوا ہے۔ مذہبی ٹچ والے اور پارٹی گروپ جو بھی کرتے ہیں یہ انکا ذاتی معاملہ ہے جو مرضی کریں لیکن ذاتی اس لیے نہیں رہتا کہ اسی گروپنگ کی بنیاد پر اپنے مذہبی ٹچ اور پارٹی گروپ کو اہم سیٹوں اورعہدوں پر نوازا جاتا ہے۔ گندہ ہے پر دھندہ ہے۔ پولیس اور بیوروکریسی کے کم از کم ایک تہائی افسران شراب نوشی اور منشیات کے عادی ہیں جبکہ دو تہائی یعنی ڈبل تعداد شیشہ، سگریٹ نوشی اور مجرہ پارٹیوں کے رسیا ہیں۔
چند سال قبل کی بات ہے کہ اس وقت کے اے ڈی سی آر لاہور کے سٹاف آفیسرکی لیٹ نائٹ کال آئی سر معذرت آپ کو ڈسٹرب کر رہا ہوں۔۔۔۔صاحب نے زیادہ پی لی ہے۔ اور اپنے کپڑے پھاڑ کر عجیب حرکتیں کر رہے ہیں ایسی حالت میں انکو گھر کیسے لیکر جاؤں۔ میں نے اس سے لوکیشن پوچھی اور وہاں پہنچا تو موصوف اپنے کپڑے پھاڑ اور اتار کر دوسرے افسران کو کہہ رہا تھا کہ مجھے اپنی گود میں بیٹھاؤ، خیر اسے بامشکل گاڑی میں بیٹھایا اور رات گئے وہاں سے ریسکیو کیا۔ جب اسے ریسکیو کرنے گیا تو اس محفل میں بیوروکریسی کے افسران ہول سیل میں موجود تھے۔ پولیس افسران، بیوروکریسی اور سیاستدان ریگولر بنیادوں پر ایسی پارٹیوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں جہاں شراب و شباب اور ہر طرح کا نشہ کرتے ہیں، لائنیں کھینچتے ہیں۔
سرکاری افسران اور سیاستدانوں میں پارٹی گروپ جوائن کرنا کامیابی کی سیڑھی سمجھا جاتا ہے۔ بیوروکریسی میں پارٹی گروپ کی گیم بہت بلند ہے، ”پاور کاریڈور“ میں داخل ہونے کا ”شارٹ کٹ“ لگانے والے افسران فوری ”کی پوسٹ“ پر ہوتے ہیں۔انتہائی دکھ اور شرم کا مقام ہے کہ اسی دیکھا دیکھی میں کچھ خواتین افسران بھی پارٹی گروپ کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ سنئیر افسر، تگڑے سیاستدان کی گرل فرینڈ کی دعویدار خواتین افسران محکمے میں سیاہ و سفید کی مالک ہوتی ہیں۔ کچھ سرکاری جوڑوں کی ماضی میں ویڈیوز بھی لیک ہوچکی ہیں۔
بیوروکریسی شدید زوال کا شکار ہے جہاں نئے افسران کی اکثریت شدید کرپٹ اور بدنسلی ہیں وہیں یہ نئے بچے کہیں بلیک میلر اور کہیں سپلائر کا کردار ادا کررہے ہیں۔لاہور کے چند نوجوان افسران نے گینگ بنا رکھا ہے جو اپنے سنئیر افسران کی مخصوص لڑکیوں سے دوستیاں کرواتے ہیں اور بعد میں انکے زیعے اہم پوسٹنگ لیتے اور اپنے کام نکلواتے ہیں۔ انہی محرکات اور”سپلائی چین“ والے خفیہ تعلقات کی وجہ سے نئے افسران کی اکثریت ناصرف عام عوام کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں بلکہ اپنے سنئیر افسران کو بھی "فار گرانٹڈ” لیتے ہیں۔ اہم سیٹوں پر تعیناتی والے ان کماؤ اور پلاؤ پتر بچوں نے ابھی وقت کا پہیہ گھومتا نہیں دیکھا، وقت بدلتے ہی جب یہ او ایس ڈی ہوں گے تو اوقات میں آجائیں گے اور بندہ شناسی کا ہنر بھی جان جائیں گے۔
پرتگالی گروپ سمیت دیگر ممالک میں ”سیٹنگ“ والے افسران بھی ٹولیوں کی صورت میں بیرون ملک جاتے ہیں اور اپنی آل اولاد کی نیشنیلٹی کرواتے ہیں۔
ملک سلمان