قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ سعد حسین رضوی اور ان کے بھائی انس رضوی کا سراغ لگالیا ہے۔

نجی ٹی وی کے مطابق ، ذرائع کے مطابق دونوں کی گرفتاری کے لیے کارروائی کسی بھی وقت عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سعد رضوی اور انس رضوی کے زخمی ہونے سے متعلق اطلاعات کی تاحال تصدیق نہیں ہو سکی۔ حکام نے اپیل کی ہے کہ اگر وہ زخمی ہیں تو فوری طور پر خود کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کریں تاکہ انہیں طبی امداد فراہم کی جا سکے۔

دوسری جانب پولیس ذرائع کے مطابق مریدکے میں ٹی ایل پی کارکنوں کے پرتشدد احتجاج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے کے بعد پولیس نے انتشار پسند مظاہرین کو منتشر کر دیا ہے تاہم جھڑپوں کے دوران ایک پولیس افسر شہید جبکہ درجنوں اہلکار زخمی ہوئے۔ذرائع کے مطابق واقعہ 12 اور 13 اکتوبر کی درمیانی شب پیش آیا جب انتظامیہ نے مظاہرین سے مذاکرات کی کوشش کی۔ حکام نے احتجاج کو کم متاثرہ مقام پر منتقل کرنے کی تجویز دی، مگر ٹی ایل پی قیادت نے مذاکرات کے دوران ہجوم کو مزید اکسانا شروع کر دیا۔پولیس کے مطابق مشتعل مظاہرین نے پتھراؤ، کیلوں والے ڈنڈوں اور پیٹرول بموں سے حملے کیے۔ انہوں نے پولیس اہلکاروں سے اسلحہ چھین کر اسی سے فائرنگ بھی کی۔ ابتدائی فرانزک اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق فائرنگ میں استعمال ہونے والی گولیاں وہی تھیں جو چھینے گئے اسلحے سے چلائی گئیں۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ہجوم نے کم از کم 40 سرکاری و نجی گاڑیاں جلا دیں جبکہ کئی دکانوں کو بھی آگ لگا دی۔ جھڑپوں کے دوران 48 پولیس اہلکار زخمی ہوئے جن میں سے 17 کو گولیوں کے زخم آئے۔ زخمی اہلکاروں کو مختلف اسپتالوں میں منتقل کر کے طبی امداد دی جا رہی ہے۔ابتدائی معلومات کے مطابق تصادم میں 3 ٹی ایل پی کارکن اور ایک راہ گیر جاں بحق ہوئے جبکہ 30 کے قریب شہری زخمی ہوئے۔ عینی شاہدین کے مطابق مشتعل مظاہرین نے یونیورسٹی کی بس سمیت متعدد گاڑیاں اغوا کرکے احتجاج میں استعمال کیں اور بعض گاڑیاں عوام کو کچلنے کے لیے بھی دوڑائی گئیں۔پولیس ذرائع کے مطابق شرپسند عناصر نے پولیس پر پتھروں، پیٹرول بموں اور کیلوں والے ڈنڈوں سے منظم حملے کیے اور مختلف مقامات سے اندھا دھند فائرنگ بھی کی۔ پولیس نے متعدد ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے جبکہ مزید کارروائیاں جاری ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ایک منظم تشدد کی کارروائی تھی جس میں قیادت نے ہجوم کو اکسانے کا کردار ادا کیا۔ قیادت خود فرار ہو گئی اور شہریوں و ریاست کو خطرے میں ڈال دیا۔ پولیس ترجمان کے مطابق ہتھیار چھیننا، گاڑیاں جلانا اور شہریوں کو نقصان پہنچانا کسی بھی طرح پرامن احتجاج نہیں کہلاتا۔

Shares: