خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کی دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں
خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں 13 تا 15 اکتوبر کے دوران سیکیورٹی فورسز نے خفیہ معلومات پر مبنی کامیاب کارروائیاں کرتے ہوئے کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے چونتیس (34) دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ اطلاعات کے مطابق یہ آپریشنز شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور بنوں میں کیے گئے جہاں دہشت گرد نیٹ ورکس کے مضبوط ٹھکانے قائم تھے۔
شمالی وزیرستان کے سپین وام علاقے میں فورسز نے ایک دہشت گرد ٹھکانے پر کارروائی کی، جس کے نتیجے میں 18 دہشت گرد مارے گئے۔ بعدازاں جنوبی وزیرستان میں کی گئی کارروائی میں 8 مزید دہشت گرد ہلاک ہوئے جبکہ بنوں میں ہونے والی جھڑپ میں 8 دہشت گردوں کا خاتمہ کیا گیا۔ کارروائیوں کے بعد علاقے میں کلیئرنس آپریشنز بھی جاری ہیں تاکہ باقی ماندہ دہشت گردوں کو بھی گرفتار کیا جا سکے۔
شمالی وزیرستان کے مرکزی قصبے میران شاہ میں ایک اہم جرگہ منعقد ہوا جس میں قبائلی عمائدین اور پاک فوج کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں علاقائی استحکام، ترقیاتی منصوبے اور پائیدار امن کے موضوعات زیرِ غور آئے۔ دونوں فریقوں نے قومی وحدت اور دیرپا امن کے لیے باہمی تعاون کو ناگزیر قرار دیا۔
سراروغہ کے علاقے میں فورسز نے ایک اور کارروائی کرتے ہوئے دو دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ کارروائی کے بعد سرچ آپریشن جاری ہے جبکہ علاقے میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ نقل و حرکت کو روکا جا سکے۔
خیبر ضلع کی تیرہ وادی میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے سات سیکیورٹی اہلکار زخمی ہو گئے جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔ فورسز نے فوری جوابی کارروائی کرتے ہوئے علاقے میں آپریشن شروع کر دیا۔اسی علاقے میں ایک الگ واقعے میں ملک دین خیل عمر خیل ویلیج کونسل کے چیئرمین فضل الرحمن آفریدی کے گھر پر مارٹر گولہ گرنے سے وہ اور ایک کمسن بچی شدید زخمی ہو گئے۔ دونوں کو پشاور اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
مہمند ضلع میں سیکیورٹی فورسز نے ایک بڑی دراندازی کی کوشش کو ناکام بناتے ہوئے 45 سے 50 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ فورسز نے دہشت گردوں کی نقل و حرکت کی ویڈیو حاصل کر کے بروقت کارروائی کی۔ بعد ازاں علاقے میں کلیئرنس آپریشن کیا گیا اور سرحدی حفاظتی انتظامات مزید سخت کر دیے گئے۔
نوشہرہ کے علاقے نیزاپور میں پولیو سیکیورٹی ڈیوٹی پر مامور کانسٹیبل مقصود خان کی شہادت کے کیس میں سی ٹی ڈی نے انتحاب عالم گروپ کو ذمہ دار قرار دے دیا ہے۔ تحقیقات کے مطابق انتحاب عالم، حماد بادشاہ، شفی اور ایک نامعلوم شخص کو مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔ پولیس نے علاقے میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔
میران شاہ میں انسدادِ دہشت گردی محکمے کے ایک افسر کو ان کے گھر پر فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا۔ نامعلوم حملہ آور موقع سے فرار ہو گئے جبکہ پولیس نے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
قلات (بنچہ) میں مسلح افراد نے این-25 قومی شاہراہ کو ایک گھنٹے تک بلاک رکھا، پولیس سے اسلحہ چھین لیا اور فائرنگ بھی کی۔مستونگ (کردگاپ) میں ایف سی اور مسلح افراد کے درمیان جھڑپ میں دو ایف سی گاڑیاں متاثر ہوئیں۔سوراب (مل شاہورائی) میں حملہ آوروں نے ایک گھنٹہ تک شاہراہ پر قبضہ کر کے پولیس سے اسلحہ چھین لیا۔دھادر (سیوری) میں یونائیٹڈ بلوچ آرمی (UBA) نے ایک مبینہ ریاستی مخبر پندی مری کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔نصیرآباد میں بلوچ ریپبلکن گارڈز (BRG) نے سیکیورٹی چیک پوسٹ، بجلی کے ٹاورز اور گیس پائپ لائن پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔تمام دعووں کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی جبکہ فورسز نے ان علاقوں میں آپریشنز کا آغاز کر دیا ہے۔
اعظم ورسک بازار میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے دو افراد زخمی ہوئے، جن میں ایک مقامی بزرگ اور ٹھیکیدار سولک وزیر شامل ہیں۔ پولیس نے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔
وفاقی حکومت نے خیبرپختونخوا میں قائم تمام باقی ماندہ افغان مہاجرین کے کیمپس بند کرنے کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔مزید 28 کیمپس بند کیے گئے جن میں پشاور کے 8، نوشہرہ کے 3، ہنگو کے 5، کوہاٹ کے 4، مردان اور صوابی کے 2، بونیر کا 1 اور دیر کے 3 کیمپس شامل ہیں۔وفاقی حکومت نے تمام کیمپ اراضی اور اثاثے صوبائی حکومت کے حوالے کرنے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ یاد رہے کہ 13 اکتوبر کو پہلے ہی 10 کیمپس بند کیے جا چکے تھے۔ذرائع کے مطابق سیکیورٹی فورسز کی حالیہ کارروائیاں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور امن کی بحالی کی جانب اہم قدم ہیں۔