خط بنام رسول خدا حضرت محمد ﷺ (پتہ: مسجد بنوی مدینہ منورہ سعودی عرب)
"فاطمہ ؓ کے بابا حسنینؓ کے نانا پہ لاکھوں سلام”
"پیارے کریم آقا ﷺ!
سب سے پہلے ادب کی کمی پیشی اور جذبات و تصورات کی بے لگام بے ترتیب عکاسی پر آج کے دور کا یہ بدو ہاتھ جوڑ کرمعافی مانگتاہے۔
حضور ﷺ آپ کے اس مجرم نے اپنی بداعمال حیات کی نجات کو آپ کی محبت سے منسوب کیا ہے۔ شرف سماعت کا احسان بخشیں۔
آقا جی مجھے دشمن نفس کی جب پہچان ہونے لگی تومیں ناراضگی خدا میں بہت دُور نکل چکا تھا مجھے اپنے خساروں کا پچھتاوا ستانے لگا۔
زندگی کی عصر ہو چکی مغرب سر پر ہے عشاء نزدیک ہے آخرزندگی زمین کی آغوش کا مقدر ہو جانی گئی۔
اتنے کم بچے وقت میں گزری حیات کی ساری قضاؤں کا کفارہ کیسے ادا ہو سکے گا؟
دنیا کے سارے معاملے بے معنی ہو کر رہ گئے اورروزآخرت والی نفس و نفسی کا منظر آنکھوں کے سامنے پھرنے لگا۔
میں خدا کے حضور آنکھوں کے کٹوروں میں ندامت کے اشک بھر کر پیش کرنے گیا اور گمان تھا کہ خدا کی جانب سے دل کا کاسہ معافی کے تحفے سے بھر کر واپس لوٹے گا۔۔۔مگرایسا نہیں ہوا۔خدا کے اصولوں کا جہان الگ ہے۔
خالی برتن کا لوٹنا بہت غمناک تھا۔اس سے بڑی کیا نالائقی ہو گئی کہ بندہ خدا سے خدا کو ہی نہ کما سکے۔
ندامت کے آنسووں سے تو توبہ کے مرجھائے پھولوں پر بھی بہار آ جاتی ہے مگر میرے وجود کے آنگن اندرگردش کرتی خزاں میں
اُمید کے درخت سے آس کے گرتے زدر پتوں کی کھنکھناہٹ کا افسردہ ماحول طاری تھا۔
میں بارگاہ خداوندی سے اپنے اعمال نامے جیسا دل کا خالی برتن ہاتھوں میں لیے لوٹ تو آیامگر مایوس نہیں تھا۔
کیونکہ آقا ﷺمیں آپ کو جانتا مانتا چاہتا ہوں آپ ہر طرح کے گنہگار کو اپنے دامن رحمت کی پردہ پوشی میں چھپا لیتے ہیں
آپ خداکو اپنے رُخ انورسے منا لیتے ہیں۔
حضو ر ﷺ میں مال اور اعمال کا کنگال بندہ پرواز رُوح سے مدینہ منورہ کے تصوراتی سفر پہ نکل پڑا۔
میں مسجد نبوی میں عین روضہ رسول ﷺ کے سامنے نماز توبہ کی ادائیگی میں یوں رب کو سجدہ کررہا ہوں کہ سر حضور ﷺکے سامنے بھی جھک رہا ہے۔ خدا کو سجدہ اور حضور ﷺکا ادب کمزورایمان کوقبولیت کے قابل بنا نے لگے۔
مدینہ سے دور مدینہ کی یادوں میں تڑپتے جو زندگی گزاری وہ بے قراری اک طرف مگر مدینہ سے واپسی کا نقصان رُوح کی موت جیسا ہے۔
اپنے وجودکی موجودگی مدینہ اندر رکھنے کو یہ حسرت مچلنے لگی کہ حضور ﷺکسی طرح آپ کواپنے ساتھ لے جاؤں یا خود کوآپ کے پاس رکھوا لوں۔
میں شدت سے یہ چاہنے لگاکہ مسجد نبوی ؑ کاداخلی دروازہ جہاں جوتے اتار کر پہلا قدم رکھتے ہیں وہاں اپنے دل کو نسب کردوں
کہ آپ کے در پر آنے والے ہر مسافر کے پیروں کے تلوے میرے دل پر آئیں اور یہ دل مہمان مدینہ کے پاؤں کے بوسے لیتا جائے
اس منظر کو حضور ؑآپ دیکھ لیں اور تبسم فرما کر ملائیکہ کو حکم فرما ئیں کہ اس دل کو اُٹھا کر ہمارے پاس رکھ دو ہم نے اسے شرف توجہ بخش دیا ہے۔
یہ فرمان جاری ہوتے ہی خوشبو کی لپٹ میرے جسم و رُوح کو اپنے حصار میں لینے لگی۔
میں منگتا سخاوت کے آسمان تلے کھڑا کرم کی بارش کو تنگ دامن میں سمیٹنے کی ناکام کوشش کیے جا رہا ہوں۔
پھر احساس توجہ رسول ؑمیں عرض کرتا ہوں۔ حضور ؑ خدا سے خدا کو مانگتا ہوں تو آپ ؑ کی جانب بھیج دیا جاتا ہوں۔
آپ ذات خدا کا رستہ بھی ہیں منزل بھی اور سلیقہ سفر بھی ہیں۔
حضور ؑ جس خدا نے آپ کو ہم سے ملوایا ہے ہمیں بھی اُس خداسے ملوا دیجئے۔
یہ محبت محمد ﷺ کامعجزہ ہے کہ اگر حضور ؑآپ کی محبت میں اشک بہیں تو بندہ خودبخود،قرب خدا کے قریب ہو جاتا ہے۔
یکدم دل کی زمین پہ یہ خیال اترا کہ ارے پگلے نگاہ مصطفی ﷺ ہی تو نگاہ خدا ہے۔۔ آرزو پیش کر۔۔
مانگ کیا مانگتا ہے محمد ﷺکے رب سے؟
میں ہاتھ جوڑ کر کہنے لگااے رب محمد ﷺ مجھ بداعمال و گنہگار کو روز آخرت حضور ﷺ کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچالیجئے گا۔
میری رُوح کو ہدایت کا غسل دے کر اپنی رضا کا لباس پہنادیجئے گا۔
حضور ﷺ کی محبت کو میری قبرمیں نور کاچراغ بنا دیجئے گا۔
قربان جاؤں اپنے رب پہ جس نے بابا آدم ؑ کی تخلیق سے بھی پہلے حضور ﷺ کا نور رحمت سارے جہانوں پر رکھ دیا۔
پھر ہمیں تقسیم وقت کے اُس حصے میں پیدا فرمایاجہاں حضو ر ﷺ ہم سے پہلے آ کرہمارے لیے دنیاو آخرت کی منزلیں آسان فرما گئے۔
مجھے یہ جان کر اتنی خوشی نہیں ہوتی کہ دنیا میں آنے سے پہلے ہم سب عالم ارواح میں تھے۔
جتنی خوشی یہ جان کر ہوتی ہے کہ دنیا میں آنے سے پہلے ہم حضو ر ﷺ کے عالم دُعا میں تھے۔
مجھے تو اُس منظر کے تصور نے کبھی احساس فخر سے نکلنے ہی نہیں دیا کہ حضور ﷺ جب آپ بشری روپ میں انسانوں کے درمیان تشریف لا ئے تھے تو آسمان کے تمام ملائکہ زمین پر نور افشانی کر تے ہوئے وجود انسان کو حسرت زدہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے آرزو مند ہوئے کہ اے کاش ہم محبوب خدا ﷺکی اُمت سے ہوتے۔۔۔
حضور ﷺ یہ غلام اپنے مقدروں پہ ناز کر تا درود شریف کا ہدایہ پیش کرتے یہ درخو است کرتا ہے کہ اپنے مقدس قدموں میں جگہ عطا فرمائیے کہ آپ کا یہ دیوانہ آپ کے نعلین مبارک کے نیچے آنے والے ہر زرے کا بوسہ لے آنکھوں سے لگائے اور دل میں رکھ لے۔
والسلام!
آپ کا گنہگار اُمتی!
ظفر اقبال ظفر رائیونڈ لاہورپاکستان
Shares: