نیویارک، واشنگٹن، ڈی سی، شکاگو، میامی، اور لاس اینجلس، میں امریکہ بھر کے شہروں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف (NO KINGS) کے مظاہروں میں لاکھوں افراد نے شرکت کی. وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپسی کے بعد امریکی صدر کے خلاف یہ پہلا بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ ہے. امریکی عوام سے اظہارِ یکجہتی کے لیے یہ احتجاج پورے یورپ میں امریکی سفارت خانوں کے باہر ہوا۔ مظاہرین نے NO KINGS کے نام سے احتجاج کیا مظاہرین کا کہنا تھا کہ امریکی صدر خود کو جمہوری لیڈر کے بجائے بادشاہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ امریکی سیاسی روایت میں بادشاہ کا تصور نہایت حساس ہے کیونکہ امریکہ کی بنیاد ہی برطانیہ کی بادشاہت کے خلاف بغاوت میں رکھی گئی تھی۔ اس لیے جب ایک صدر خود کو اس علامت کے ذریعے پیش کرے تو یہ سیاسی شعور رکھنے والے امریکیوں کے لیے جمہوریت پر خطرے کی گھنٹی محسوس ہوتی ہے۔ لاکھوں مظاہرین نے NO KINGS کو جمہوریت کے دفاع کے نعرے کے طور پر اپنایا. اس سے حزبِ مخالف کو ایک مضبوط اخلاقی موقف ملا کہ وہ عوامی سطح پر صدر کی طاقت کے حد سے زیادہ کہ استعمال کے خلاف ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قدامت پسند ریپبلکن ووٹرز نے بھی اس نعرے سے اتفاق کیا حالانکہ وہ ٹرمپ کے حامی تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے یہ تحریک پارٹی لائن سے آگے بڑھ کر جمہوری اصولوں کی بات کر رہی ہے۔ ٹرمپ کی ویڈیوز نے آن لائن دنیا میں طنز اور جوابی بیانیوں کی جنگ چھیڑ دی۔ مظاہرین نے ٹرمپ کے KING TRUMP کو الٹا استعمال کیا. NO KINGS کا بیش ٹیگ ٹویٹر پر چند گھنٹوں میں ایک ٹرینڈ بن گیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ڈیجیٹل دور میں سیاسی طنز دو دھاری تلوار ہے جس سے مقبولیت کے ساتھ ساتھ مخالفت بھی بڑھ جاتی ہے۔ ویڈیو نے امریکی معاشرے میں پہلے سے موجود تقسیم ڈیموکریٹس بمقابلہ ریپبلکن، شہری، اور دیہی علاقوں کو مزید گہرا کر دیا۔ ایک طبقہ اسے اظہارِ آزادی کہہ کر دفاع کر رہا ہے جبکہ دوسرا طبقہ اسے عوام کی تذلیل سمجھتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ٹرمپ کی سیاست اب صرف پالیسی نہیں بلکہ جذباتی وفاداری کے جذبات پر مبنی ہے۔
امریکی نوجوان طبقہ جو عام طور پر سیاست سے دور رہتا ہے اس بار سوشل میڈیا کے ذریعے سرگرم ہوا تحریک نے ان کے لیے جمہوریت اور عوامی NO KINGS آواز کی معنویت کو زندہ کیا یعنی سیاسی شمولیت میں اضافہ ممکن ہوا اس کے مستقبل کی سیاست پر اثرات پڑھیں گے۔ پارٹی کے اندر بعض سینئر رہنماؤں نے نجی طور پر تشویش ظاہر کی کہ ایسی ویڈیو اعتدال پسند ووٹرز کو دور کر سکتی ہیں۔ کچھ پارٹی رہنما اس رجحان کو (CULT POLITICS) کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو روایتی ریپبلیکن اقتدار جیسے ادارہ جاتی احترام کے خلاف جا رہی ہے۔
دوسری طرف ڈیموکریٹس نے اس واقعے کو بے انتخابی بیانیہ میں شامل کر لیا ہم بادشاہ نہیں چاہتے ہمیں عوامی حکمرانی چاہیے۔ اگر یہ بیانیہ موثر رہا تو آئندہ انتخابات میں اسے سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے۔ کنگ ٹرمپ ویڈیو محض طنزیہ ویڈیو نہیں رہا یہ اب امریکی سیاست کی نئی علامت بن چکا ہے۔ ایک طرف یہ طاقت کی سیاست کی نمائندگی کرتا ہے دوسری طرف یہ عوام کی خود مختاری کے دفاع کی علامت بن گیا ہے۔ لہذا یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ ویڈیو دراصل امریکی جمہوریت کے بیانیہ کی جنگ کا نیا محاذ بن گئی ہیں۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو مستحکم کرنا چاہیے اور اپنا رخ جمہور کی طرف موڑ لینا چاہیے انتخابی اصلاحات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی حکومت عوامی دباؤ کے تحت اصلاح کرتی ہے تو وہ اصلاح نہیں بلکہ پسپائی ہوتی ہے۔ جس طرح آج لاکھوں افراد صدر ٹرمپ کے خلاف سڑکوں پر نکلے، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں جمہوریت لڑکھڑا چکی ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو ملک میں قانون کی حکمرانی، پارلیمنٹ کی بالادستی، جمہوریت کو مستحکم کرنے پر توجہ دینا ہوگی اور ان ممالک سے سبق حاصل کرنا ہوگا۔