شرعی اور دنیاوی لحاظ سے اپنے جان و مال اور عزت کی حفاظت کرنا انفرادی اور اجتماعی حق نہیں ہے؟

یقینا ہے!! کیونکہ صحیح مسلم کے حدیث نمبر ۱۴۰ میں امام مسلم روایت کرتے ہیں کہ ” ایک شخص نے رسول الله علی علیم سے پوچھا: یارسول اللہ ! اگر کوئی میرے مال کو چھیننے کے لیے آئے تو کیا کروں؟ حضور نے فرمایا: اسے اپنا مال نہ دو۔ اس نے کہا: اگر وہ مجھ سے لڑے؟

فرمایا: اس سے لڑو۔ اس نے کہا: اگر وہ مجھے قتل کر دے؟ فرمایا: تم شہید ہو۔ اس نے کہا: اگر میں اسے قتل کر دوں ؟ فرمایا: وہ جہنمی ہے "۔

جب اللہ کے نبی نے اپنے مال کی حفاظت کے لیے اتنا واضح اور سخت معیار دے دیا کہ اگر کوئی تمہارے مال پر حملہ کرے تو اس سے لڑو، اور فرمایا کہ اگر تم مارے گئے تو شہید ہو ، اور اگر وہ مارا گیا تو وہ دوزخی ہے۔

لہذا وہ افغان طالبان جو پاکستان میں دہشتگرد بھیج رہے ہیں، جو ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو شہید کر چکے ہیں، اور کروڑوں روپے کا نقصان کرواچکے ہیں ،ان کے خلاف پاکستان کا اپنے دفاع میں کارروائی کرنا عین شریعت کے مطابق ہے، بلکہ پاکستان پر ایک ریاستی فرض ہے۔

کیا پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں افغانستان کی سرزمین کا استعمال اور سر پرستی نظر انداز کی جاسکتی ہے ؟
جواب یقینا نفی میں ہے کیونکہ مشہور اور مستند محدث امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "جو گروہ خوارج کی حمایت کرے ، انہیں اسلحہ یا مال فراہم کمرے ، یا ان کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھے ، وہ بھی خوارج کے زمرے میں آتا ہے ” (فتح الباری، باب، قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم ) ۔

افغان طالبان ٹی ٹی پی کو اسلحہ اور دیگر سہولتیں فراہم کر رہے ہیں اور اُن کے ذریعے پاکستان میں وحشیانہ دہشتگردی کروائی کی جارہی ہے۔

ایسے حالات میں پاکستان کا ان کے خلاف کارروائی کرنا شرعی طور پر جائز ہے ، بلکہ اپنے دفاع کے اعتبار سے لازم ہے ، تاکہ خوارج کے ذریعے ہونے والا فساد و قتل و غارت روکا جاسکے اور پاکستانی عوام کی جان و مال محفوظ بنائی جا سکے۔

Shares: