افغانیوں کی غداریاں کب ختم ہوں گی؟
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفے بڈانی
تہذیبیں کتابوں میں سنہرے حروف سے لکھی جاتی ہیں، مگر افغانستان کی تاریخ خون، بارود اور احسان فراموشی سے بھری ایک المناک داستان ہے۔ یہ سرزمین، جسے قدرت نے غیر معمولی جغرافیائی اہمیت عطا کی، صدیوں سے بیرونی طاقتوں کی یلغار کا مرکز رہی، لیکن اس کا اصل المیہ دشمن نہیں بلکہ اپنوں کی غداری رہی ہے۔ برطانوی دور کی افغان جنگوں سے لے کر آج کے طالبان دور تک، افغان حکمرانوں اور بعض اوقات خود عوام نے اپنی ہی قوم اور مخلص ہمسایوں کے ساتھ دغا بازی کی مثالیں قائم کیں۔ پاکستان نے جس خلوص سے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی، انفراسٹرکچر سے لے کر انسانی ہمدردی تک بے مثال مدد فراہم کی، اسی کے بدلے اسے سرحدی حملے، دہشت گردی اور بھارت نوازی کی شکل میں زخم ملے۔ آج جب طالبان کے وزرا نئی دہلی میں بیٹھ کر پاکستان کو دھمکیاں دیتے ہیں اور سرحد پار سے گولہ باری کرتے ہیں تو یہ تاریخ کی اسی زنجیر کی نئی کڑی محسوس ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ غداریوں اور احسان فراموشیوں کا سلسلہ کب ٹوٹے گا؟

برطانیہ کی پہلی افغان جنگ( 1839 تا 1842)کے بارے میں ایرانی مئورخین کا کہنا ہے کہ ایران نے اس دور میں افغانستان کی بھرپور مدد کی، برطانوی فوج کے مقابلے میں اپنی افواج ہرات میں داخل کیں اور جنگ میں برطانیہ کے خلاف اپنا سب کچھ دا ؤپر لگا دیا۔ تاہم افغان مئورخین اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں کہ ایران نے دراصل افغانستان کی مدد نہیں کی بلکہ ہرات پر قبضے کے لیے فوجی کارروائی کی، جو گریٹ گیم یعنی برطانیہ اور روس کے درمیان وسطی ایشیا پر غلبے کی کشمکش کا حصہ تھی۔

افغان تاریخ میں متعدد حکمران ایسے گزرے ہیں جو اپنی قوم سے غداری کر کے بیرونی طاقتوں کے کٹھ پتلی بنے اور دشمنوں کا آلہ کار ثابت ہوئے۔ یہ غداریاں نہ صرف قومی اتحاد کو کمزور کرتی رہیں بلکہ افغانستان کو مستقل انتشار کا شکار بھی رکھا۔ چند اہم مثالیں درج ذیل ہیں
شاہ شجاع (1839-1842): پہلی افغان جنگ کے دوران برطانیہ نے انہیں تخت پر بٹھایا۔ وہ برطانیہ کے کٹھ پتلی تھے اور افغان قوم کی مزاحمت کے باوجود برطانوی مفادات کا تحفظ کرتے رہے۔ ان کی غداری کی وجہ سے افغانوں نے بغاوت کی اور انہیں قتل کر دیا گیا۔
حفیظ اللہ امین (1979): سوویت یونین کے حملے کے دوران حفیظ اللہ امین نے اپنے پیشرو نور محمد ترکئی کو قتل کر کے اقتدار حاصل کیا اور سوویت یونین کا کٹھ پتلی بنا۔ ان کی غداری نے افغانستان کو سوویت قبضے میں دھکیل دیا، جس سے لاکھوں افغان ہلاک ہوئے۔
ببرک کارمل (1979-1986): سوویت یونین نےحفیظ اللہ امین کو ہٹا کر ببرک کارمل کو اقتدار دیا۔ وہ مکمل طور پر سوویت کٹھ پتلی تھے اور افغان مجاہدین کی مزاحمت کو کچلنے کی کوشش کی، جو قومی غداری کی واضح مثال ہے۔

حامد کرزئی اور اشرف غنی (2001-2021): امریکہ اور نیٹو کے حملے کے بعد یہ دونوں حکمران مغربی طاقتوں کے کٹھ پتلی بنے۔ کرزئی نے امریکی مفادات کو ترجیح دی اور غنی نے بھی یہی کیا جو 2021 میں طالبان کے سامنے فرار ہو گئے۔ ان کی حکومتوں کو "کٹھ پتلی نظام” کہا جاتا ہے جو افغان قوم کی خودمختاری سے غداری تھی۔یہ مثالیں دکھاتی ہیں کہ افغان حکمران بار بار بیرونی طاقتوں (برطانیہ، سوویت یونین، امریکہ)کے آلہ کار بنے اور اپنی قوم سے غداری کی، جس سے افغانستان مستقل بحران کا شکار رہا۔

افغان حکمرانوں کی غداری کی زنجیر میں ایک اہم کڑی بھارت کا کردار بھی ہے۔ تاریخی طور پرافغانستان اور پاکستان کے درمیان تنازعات میں بھارت نے افغانستان کو اپنا آلہ کار بنا کر پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پرسابق افغان نائب صدر امر اللہ صالح کو بھارت کا پٹھو کہا جاتا ہے جو پاکستان کو بدنام کرنے اور علاقائی عدم استحکام پیدا کرنے میں ملوث رہے۔ کرزئی اور غنی کی حکومتوں نے بھی بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے جو پاکستان کے لیے ایک اسٹریٹجک خطرہ تھے۔ ان حکومتوں نے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ‘را’ کو افغانستان میں کارروائی کرنے کی اجازت دی، جو پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے میں ملوث تھی، جس سے بلوچستان اور خیبرپختو نخوا میں بھارتی فتنہ الخوارج ٹی ٹی پی اور بی ایل اے دہشت گردی کا نیٹورک اور کارروائیاں اور طالبان کے دور میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

بھارت نے طالبان حکومت کوڈالر دیکر ان کے ساتھ روابط بڑھا لیے ہیں جو پاکستان کو ہرگز قبول نہیں ہیں۔ یہ تعلقات پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہیں کیونکہ افغانستان سے ٹی ٹی پی جیسے گروپس پاکستان پر حملے کر رہے ہیں اور یہ بھارتی اثر و رسوخ کا نتیجہ ہے۔ اس طرح افغان حکمران بھارت کی کٹھ پتلی بن کر پاکستان کی سرحدوں پر تناؤپیدا کرتے رہے اور معاشی و سیکیورٹی نقصان پہنچاتے رہے ہیں اور ابھی تک یہ سلسلہ رکا نہیں۔امیر خان متقی کی بھارت میں بیٹھ کر پاکستان کو دھمکیاں اور طالبان حملے حالیہ واقعات احسان فراموشی کی اس کہانی کو مزید تلخ بناتے ہیں۔

اکتوبر 2025 میں طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بھارت کا دورہ کیا اور وہاں سے پاکستان کو کھلی دھمکیاں دیں۔ متقی نے کہا کہ "پاکستان ہمارا واحد متبادل نہیں ہے” اور بارڈر جھڑپوں میں افغانستان نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔ یہ دورہ ایسے وقت ہوا جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان جھڑپیں جاری تھیں اور متقی کی بھارت میں موجودگی نے یہ تاثر دیا کہ طالبان بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔اس کے فوراََبعد طالبان فورسز نے پاکستان کی سرحدوں پر حملے کیے۔ متعدد جھڑپیں ہوئیں، جن میں طالبان نے پاکستانی فوجیوں پر حملے کیے اور دعوی کیا کہ 58 پاکستانی فوجی مارے گئے۔ یہ حملے کئی صوبوں میں ہوئے، جن میں ٹی ٹی پی اور دیگر گروپس شامل تھے اور پاکستان نے واضح ثبوتوں کےساتھ بتایا ہے کہ یہ حملے افغان سرزمین سے کیے جا رہے ہیں پاکستان نے اس کا بھرپور جواب دیا۔ پاکستان نے ایئر سٹرائیکس کیں، جن میں خوست اور پکتیکا میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا اور دعوی کیا کہ 200 سے زائد طالبان اور اتحادی مارے گئے۔ پاکستان نے افغان طالبان کی کئی بارڈر پوسٹس پر قبضہ کیا اور کارروائیاں کیں۔ یہ جوابی کارروائی پاکستان کی خودمختاری کی حفاظت کا حصہ تھا اور آخر کار دونوں جانب سے سیز فائر کا اعلان ہوا۔

پاکستان نے افغانستان کو ہمیشہ ایک بھائی ملک سمجھا اور اس کی مدد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سوویت حملے (1979-1989) کے دوران پاکستان نے لاکھوں افغان مجاہدین کو تربیت دی، اسلحہ فراہم کیا اور اربوں ڈالر خرچ کیے۔ اس کے علاوہ 40 سال سے زائد عرصے تک پاکستان نے 40 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کو پناہ دی، انہیں تعلیم، روزگار اور طبی سہولیات فراہم کیں،یہ ایک تاریخی احسان ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔لیکن افسوس کہ افغان حکمرانوں اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے یہ احسان بھلا دیا۔ حالیہ برسوں میں طالبان حکومت نے پاکستان پر الزامات لگا کر اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کو سپورٹ کر کے غداری کی ہے۔ بارڈر تنازعات جیسے طورخم اور چمن پر جھڑپیں، افغانوں کی احسان فراموشی کی واضح مثالیں ہیں۔

پاکستان نے افغانستان کی تعمیر نو میں اربوں ڈالر کی امداد دی، لیکن بدلے میں الزامات اور دشمنی ملی۔ متقی کی دھمکیاں اور طالبان حملے اس احسان فراموشی کی تازہ ترین مثالیں ہیں جو پاکستان کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ اپنے دفاع میں سخت اقدامات اٹھائے۔ یہ سلسلہ 1979 سے شروع ہوا، جب پاکستان نے سوویت کے خلاف مدد کی، لیکن 2021 میں طالبان کی واپسی کے بعد سے شدت اختیار کر گیا، جہاں افغانستان نے ٹی ٹی پی کو پناہ دے کر پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دیا۔ یہ احسان فراموشی نہ صرف پاکستان بلکہ پوری مسلم امہ کے لیے افسوسناک ہے۔

افغانستان کو چاہیے کہ اپنی تاریخ سے سبق سیکھے اور غداری کی اس زنجیر کو توڑے احسان فراموشی کی یہ روایت نہ صرف ان کی قوم کو کمزور کرتی ہے بلکہ علاقائی امن کو بھی خطرے میں ڈالتی ہے۔ افغان قوم کو اپنے حکمرانوں سے یہ سوال پوچھنا ہوگا کہ یہ غداریاں کب ختم ہوں گی؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وضاحت:اس کالم میں برطانیہ کی پہلی افغان جنگ( 1839 تا 1842 )سے متعلق ایرانی اور افغانی مئورخین کے مختلف مئوقف پر مبنی ہے۔ ایرانی مئورخین کے مطابق ایران نے افغانوں کی مدد کی، جب کہ افغان مئورخین کا کہنا ہے کہ ایران نے دراصل ہرات پر قبضے کی کوشش کی۔ یہ دونوں مئوقف تاریخی دستاویزات پر مبنی ہیں، تاہم مغربی مئورخین کی اکثریت ایران کی مہم کو علاقائی توسیع قرار دیتی ہے، نہ کہ افغان حمایت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخی حوالہ جات
Historical References

1. https://en.wikipedia.org/wiki/First_Anglo-Afghan_War
2. https://www.historic-uk.com/HistoryUK/HistoryofBritain/First-Anglo-Afghan-War-1839-1842/
3. https://www.thoughtco.com/the-first-anglo-afghan-war-195101
4. https://en.wikipedia.org/wiki/Siege_of_Herat_%281837%E2%80%931838%29
5. https://en.wikipedia.org/wiki/First_Herat_War
6. https://journals.openedition.org/samaj/3384
7. https://en.wikipedia.org/wiki/Hafizullah_Amin
8. https://en.wikipedia.org/wiki/Operation_Storm-333
9. https://en.wikipedia.org/wiki/Babrak_Karmal
10. https://en.wikipedia.org/wiki/Hamid_Karzai
11. https://www.wsws.org/en/articles/2014/09/30/afgh-s30.html
12. https://indianexpress.com/article/india/amrullah-saleh-afghanistan-crisis-taliban-takeover-7503410/
13. https://issi.org.pk/wp-content/uploads/2017/10/7-SS_Mir_sherbaz_Khetran_No-3_2017.pdf
14. https://www.jstor.org/stable/312410
15. https://en.wikipedia.org/wiki/Soviet%E2%80%93Afghan_War
16. https://en.wikipedia.org/wiki/Foreign_involvement_in_the_Soviet%E2%80%93Afghan_War
17. https://globalcompactrefugees.org/gcr-action/countries/afghan-refugee-situation

Shares: