بھارت کا نام نہاد آپریشن سیندور جاری رکھنے کیلئے 114 رافال جنگی طیاروں کا بڑا دفاعی منصوبہ ایک بار پھر سنگین بحران کا شکار ہو گیا ہے۔ فرانس نے چوبیس ارب ڈالرز کے اس معاہدے میں نئی دہلی کی سخت شرائط خاص طور پر سافٹ ویئر سورس کوڈ کے حصول سے متعلق مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے جب کہ بھارتی وزارت دفاع نے اپنی فضائیہ کو کہا ہے کہ فرانس سے معاہدے کو مکمل کرنے کیلئے دوبارہ پروپوزل دے۔ بھارت نے فرانس کو جو تجاویز دی ہیں اس میں بھارت کا یہ بھی اصرار کہ فرانس رافال کی مکمل ٹیکنالوجی بھارت کو منتقل کرے لیکن فرانس نے بھارت پر واضح کردیا ہے کہ یورپی ممالک حساس نوعیت کے کوڈ کسی تیسرے ملک کے حوالے نہیں کرتے۔ فرانس نے طیاروں کی بھارت میں مقامی تیاری پر تو اتفاق کیا ہے جب کہ اصل ٹیکنالوجی یعنی انجن، ریڈار اور سافٹ ویئر کے کنٹرول مکمل طور پر فرانس کے ہی کنٹرول میں رہیں گے کیونکہ فرانس میں انہیں اپنا “اسٹریٹجک اثاثہ” سمجھا جاتا ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ اسے رافال کے اویانکس سسٹم اور مشن سافٹ ویئر کا سورس کوڈ ملے تاکہ وہ اپنے مقامی میزائل، بم، اور الیکٹرانک وارفیئر سسٹم ان طیاروں میں خود شامل کر سکے۔ لیکن فرانس اس پر تیار نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ بھارت جو حساس نوعیت کی ٹیکنالوجی حاصل کرنا چاہتا ہے وہ دسالت اور تھیلز کمپنیوں کی ملکیتی ہے جب کہ دوسری طرف نیٹو اور یورپی یونین کے ایکسپورٹ کنٹرول قوانین بھی اس ٹیکنالوجی کو کسی دوسرے ملک کو ٹرانسفر کرنے پر پابندی لگاتے ہیں۔ فرانس نے کہا ہے کہ integration support تو دی جا سکتی ہے مگر مکمل سورس کوڈ کی فراہمی ممکن نہیں۔ بھارت یہ بھی چاہتا ہے کہ 114 میں سے کم از کم 80 طیارے میک ان انڈیا اسکیم کے تحت بھارت میں تیار کیے جائیں لیکن فرانس کا کہنا ہے کہ حیدرآباد میں فائنل اسمبلی لائن تو ممکن ہے مگر بنیادی ڈھانچے اور ٹیکنالوجی منتقلی پر بھاری لاگت آئے گی جس سے معاہدے کی قیمت دگنی ہو سکتی ہے اس لئے پہلے 18 سے 24 طیارے فرانس میں بنائے جائیں گے جب کہ باقی طیارے بعد میں بھارت میں مکمل کئے جائیں گے۔ اس وقت یہ معاہدہ تقریباً 24 ارب ڈالر کا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تاخیر سے بھارت کی فضائی قوت پر براہِ راست اثر پڑے گا کیونکہ اس کے کئی اسکواڈرن پہلے ہی ریٹائرڈ ہو چکے ہیں جبکہ چین اور پاکستان دونوں تیزی سے اپنے فضائی بیڑے جدید بنا رہے ہیں۔
دریں اثنا بھارتی اپوزیشن نے مودی کے میک ان انڈیا دعوے کو کھوکھلا قرا دیتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت کا فرانس سے 114 رافال جنگی طیاروں کامنصوبہ بھارت کے لیے ایک سیاسی نعرہ زیادہ اور حقیقی پیش رفت کم دکھائی دیتا ہے۔ حکومت اس منصوبے کو بظاہر اس کی دفاعی برتری کا نیا سنگِ میل قرار دے رہی ہے لیکن یہ محض ایک تکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ بھارت کے دفاعی نظام کی گہرے انتشار کی نشاندہی کرتا ہے۔ یوں “میڈ اِن انڈیا” کا نعرہ ایک بار پھر کھوکھلا ثابت ہوا ہے کیونکہ اگر ٹیکنالوجی کی بنیاد ہی دوسرے ملک کے قبضے میں ہو تو مقامی پیداوار محض اسمبلی لائن کا نام رہ جاتی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارت کی دفاعی منصوبہ بندی اس نوعیت کی مشکلات سے دوچار ہوئی ہو۔ ٹیجاس منصوبے کی تاخیر، Kaveri انجن کی ناکامی، اور ایس 400 کی ترسیل میں تاخیر اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ بھارت دفاعی خود انحصاری کے راستے پر محض نعرے لگا رہا ہے، حقیقی پیش رفت نہیں ہو رہی۔ فرانس کی جانب سے پیدا شدہ رکاوٹ نے نریندر مودی حکومت کے “ویژن 2035 دفاعی منصوبے” پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ بھارت اپنی سیاسی خواہشات کے زیرِ اثر ایسے منصوبے بنا رہا ہے جن کی تکنیکی اور مالی بنیادیں غیر حقیقت پسندانہ ہیں۔ ایک جانب وہ خود کو “عالمی سپر پاور” کہلواتا ہے، مگر دوسری جانب بنیادی پرزہ جات اور ایویونکس سسٹم تک درآمد پر انحصار کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ رافال ڈیل کی تاخیر کا سب سے بڑا نقصان بھارتی فضائیہ کو ہو گا جو پہلے ہی پرانے مگ-21 طیاروں کی ریٹائرمنٹ سے کمزور ہو چکی ہے۔ اس دوران چین اور پاکستان اپنے فضائی بیڑوں کو تیزی سے جدید کر رہے ہیں، بالخصوص چین کے J-20 اور پاکستان کے JF-17 Block III کی موجودگی میں بھارتی فضائیہ کے پاس تکنیکی برتری باقی نہیں رہی۔








