معروف صحافی اور اینکر مبشر لقمان نے اپنے تازہ وِلاگ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تنازع، یعنی ڈیورنڈ لائن پر تفصیلی تاریخی تجزیہ پیش کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ افغانستان کی جانب سے اس سرحد کو ’’جعلی لکیر‘‘ قرار دینا حقائق کے منافی اور تاریخی طور پر غلط مؤقف ہے۔

مبشر لقمان کے مطابق، گزشتہ کچھ ماہ سے افغان عبوری حکومت ڈیورنڈ لائن کو متنازع قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے۔دو ہفتے قبل افغان وزیرِ خارجہ ملا امیر خان متقی نے نئی دہلی میں بیٹھ کر اسے ’’فیک لکیر‘‘ کہا، جس کے بعد وزیرِ سرحدی امور نوراللہ نوری اور وزیرِ دفاع ملا یعقوب نے بھی اسی مؤقف کو اپنایا۔انہوں نے بتایا کہ افغان حکومت نے ایک نیا نقشہ جاری کیا ہے، جس میں بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سابق فاٹا کے بعض علاقوں کو افغانستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ علاقے برطانوی دور میں افغانستان نے 100 سال کی لیز پر دیے تھے، جو اب ختم ہو چکی ہے۔

مبشر لقمان کے مطابق، ڈیورنڈ معاہدہ 1893ء میں افغان بادشاہ امیر عبدالرحمان خان کی خواہش پر طے پایا تھا تاکہ اُس وقت کے برطانوی ہندوستان کے ساتھ سرحدی حدود طے کی جا سکیں۔یہ معاہدہ تحریری شکل میں آج بھی موجود ہے اور اس میں نہ کسی مدت، نہ لیز کا ذکر ہے۔معاہدے کے بعد چار کمیشنز نے 2200 کلومیٹر طویل سرحد کی نشاندہی کی، جس میں افغان حکام اور قبائلی عمائدین شامل تھے۔مبشر لقمان نے دعویٰ کیا کہ معاہدے کے بعد افغان حکومت نے خوشی کا اظہار کیا اور کابل میں اس موقع پر تقریب بھی منعقد کی گئی تھی۔

اپنے وِلاگ میں مبشر لقمان نے بتایا کہ امیر عبدالرحمان کے بعد آنے والے افغان بادشاہوں نے بھی اس سرحد کو تسلیم کیا،1905ء: امیر حبیب اللہ خان نے ’’حبیب اللہ ایگریمنٹ‘‘ کے تحت ڈیورنڈ لائن کی تصدیق کی۔1919ء اور 1921ء: امان اللہ خان کے دور میں ’’کابل ایگریمنٹ‘‘ کے ذریعے دوبارہ توثیق ہوئی۔1930ء: بادشاہ نادر خان نے بھی برطانوی حکومت کو یقین دہانی کرائی کہ وہ سابقہ معاہدوں کی پاسداری کرے گا۔

مبشر لقمان کے مطابق، اگر یہ معاہدہ زبردستی کیا گیا ہوتا تو افغانستان کے بعد آنے والے حکمران اسے تسلیم نہ کرتے۔مبشر لقمان کا کہنا ہے کہ امریکہ، برطانیہ، چین، روس اور اسلامی ممالک سمیت عالمی برادری ڈیورنڈ لائن کو ایک بین الاقوامی سرحد تسلیم کرتی ہے۔افغانستان نے خود بھی ویانا کنونشن پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت وہ بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کا پابند ہے۔

وِلاگ میں مبشر لقمان نے افغان مؤقف کو ’’تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش‘‘ قرار دیا۔ان کے مطابق اگر افغانستان ماضی کے اقتدار کی بنیاد پر علاقے مانگنے لگے، تو پھر ایران اور ہندوستان بھی افغانستان پر اپنے پرانے دعوے کر سکتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ افغان طالبان کا یہ کہنا کہ ’’تمام پشتون افغان ہیں‘‘، تاریخی و آئینی لحاظ سے غلط ہے، کیونکہ "افغان” دراصل قومیت کا نام ہے، کوئی نسلی شناخت نہیں۔

مبشر لقمان کے مطابق، پاکستان نے ہمیشہ اس مؤقف پر زور دیا ہے کہ ڈیورنڈ لائن ایک بین الاقوامی سرحد ہے۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان نے ماضی میں پاکستان مخالف گروہوں کو پناہ دی اور شورش کو ہوا دی، جس سے تعلقات میں کشیدگی بڑھی۔وِلاگ کے اختتام پر مبشر لقمان نے خبردار کیا کہ پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے اور اگر حالات یہی رہے تو "ممکن ہے اسلام آباد سخت اقدامات پر مجبور ہو جائے”۔

کسی مدرسے یا مسجد کو بند نہیں کیا ، پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے: محسن نقوی

پاکستان کے فضائی حملوں میں دہشت گرد کمانڈر گل بہادر ساتھیوں سمیت ہلاک

اسرائیلی پارلیمنٹ کی مغربی کنارے کے انضمام سے متعلق بل کی منظوری

نئے پاکستانی پاسپورٹس میں جدید سیکیورٹی فیچرز، والدہ کا نام بھی شامل

Shares: