ماضی میں کہا جاتا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کی صرف سرحدیں ہی نہیں بلکہ دل بھی ملتے ہیں لیکن اب اثر زائل ہو چکا ہے، اس اثر کے خاتمے کے اسباب افغان حکومت کی غلط پالیسیوں کے ساتھ کچھ سیاسی طاقتوں کے نا توازن تعلقات تھے۔ افغانستان کی جغرافیائی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن اس کی موجودہ سرحدیں تنازعات میں گھری ہوئی ہیں، میں اس بات سے قرینہ قیاس کرتا ہوں کہ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ اسٹریٹیجک تعلقات بہتر کرنا بھی غلطی ہو گی۔
دنیا گواہ ہے کہ جب جب افغانستان کے ساتھ جس نے وفا کی وہ مارا گیا۔دی وال سٹریٹ جرنل کے جرنلسٹ سون اینجل راسموسن نےسال 2024 میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان Twenty Years: Hope, War and the Betryal of an Afghan Generation تھا۔ یہ کتاب خصوصی طور پر افغانیوں کی بے وفائی اور عالمی برادی کے کردار پر لکھی گئی۔ اس کتاب میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والے سیاسی تنازعات اور الزامات پر بھی بحث کی گئی ہے،کتاب میں جہاں افغان خطے میں بسنے والے لوگوں کی بے وفائی پر تبصرہ ہے وہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں ہونے والے مخصوص واقعات وجہ موضوع ہیں نہ کہ پوری افغان نسل یا پٹھان قوم کو الزامات کا نشانہ بنانا مقصود ہے۔ آن دی ادر سائیڈ، یہ بات سچ ہے کہ افغانی حکمرانوں نے کبھی اپنے لوگوں سے بھی وفا نہیں کی۔قطع نظر کہ ماضی میں پاکستان کی سیاسی قیادت کی وجہ سے بھی معاملات میں جھول تھے ۔
افغانستان کی موجودہ شکل کا قیام 1747 میں احمد شاہ درانی نے کیا تھا جس کا رقبہ 6 لاکھ 52 ہزار 864کلومیٹر ہے۔ویسے تو افغانستان کی تاریخ آریانہ سے شروع ہوئی تھی جو آج کے افغانستان ، خراسان پر مشتمل تھی اسی وجہ سے افغانستان کی سرحدیں مختلف ادوار میں تبدیل ہوتی رہیں۔آج افغانستان کی موجودہ سرحدیں 6 ممالک سے ملتی ہیں واضح رہے کہ افغانستان کسی بھی ملک میں طالبان کو نہیں بھیج سکتا اور نہ ہی کوئی ملک افغانستان کو مداخلت کی اجازت دیتا ہے مگر حیران کن طور پر پاکستان نے افغانی مہاجرین کا 40 سال بوجھ برداشت کیا جس کا ثمر یہ ملا کہ آج ہم دہشت گردی کے چنگل سے نہیں نکل پا رہے،پاکستان پچھلے چند سالوں میں دہشت گردی کی وجہ سے 150 ارب ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کر چکا ہے،آج اکتوبر 2025 تک اسی ہزار سے زائد لوگوں کی قربانیاں دے چکا ہے لیکن آج بھی افغان طالبان کی نظر میں پاکستان بُرا ہے ۔ پاکستان اپنے بڑے بھائی کو ہمیشہ گلے لگا کر دشمن کی سازشوں سے بچاتا رہا ۔
پاکستان کے ساتھ جو افغان سرحد ملتی ہے اس کو ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے جس کی لمبائی 2670 کلومیٹر ہے ،دوسرے نمبر پر تاجکستان کی سرحد افغانستان کے ساتھ 1206 کلومیٹر ہے جبکہ ایران 936،ترکمانستان 744اور چین کی سرحد 76 کلومیٹر ہے ۔ چھ ممالک میں سے افغانستان کا بس کسی ملک میں نہیں چلتا مگر پاکستا ن کی سرحد بھی پار کرتے ہیں اور گالی بھی دیتے ہیں، تمام احسانات کے باوجود جو پاکستان نے آج تک نہیں جتلائے افغانستان سابقہ حریف انڈیا کو موجودہ دوست بنا چکا ہے ،لگتا یوں ہے کہ افغانستان کے ساتھ اسٹریٹیجک تعلق قائم کرنا اپنے ساتھ دشمنی کرنےکے مترادف ہے۔پچھلے ہفتہ طالبان کے وزیر خارجہ امیر متقی نے ایک ہفتہ انڈیا کے دورہ پر تھے جس کا واضح ثبوت ہے کہ افغانستان اپنی پالیسی بدل چکا ہے۔ افغانستان کی اپنی تاریخ جہاں بہت پرانی ہے وہاں افغانی طالبان آج بھی ازلوں سے چلتی دشمنی کی تاریخ کو مسخ نہیں کرنا چاہتے اور بار بار ہار جاتے ہیں۔ گوریلا وار کے ماہر پاکستان کو گرانے کو سوچتے ہوئے خود گر جاتے ہیں ، شاید کچھ لوگ سوچیں کے افغانستان نے امریکہ جیسی سپر پاور کو شکست دی ، واضح رہے کہ امریکہ کو شکست دلانے میں صرف افغانستان کا ہی کردار نہیں تھا۔افغانستان کے چونتیس صوبے ہیں لیکن کوئی بھی صوبہ ایسا نہیں جہاں جہاد کے نام پر مجاہدین کی ریل بیل نہیں تھی، آج جب افغانستان میں طالبان کی حکومت کو چار برس گزر چکے ہیں کسی ملک نے باقاعدہ طور پر افغان طالبان کو تسلیم نہیں کیا۔ کنارہ کشی کے باوجود پاکستان ہمیشہ بازو بنا ، بارِ دیگراں تعلقات خراب ہوئے لیکن معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی گئی ، آج حقانی گروپ اور قندھاری گروپ میں آپسی لرائیاں جاری ہیں جس کا فائدہ دشمن اٹھانے کی لاکھ کوشش کر رہا ہے۔یہ آج کی بات نہیں 1994 سے بھارت افغانستا ن کو ایک پراکسی کے طور پر دیکھ رہا رتھا جس کے ذریعے اپنی پراکسیوں کو مضبوط کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ اگر یہی صورتحال افغان طالبان کی رہی تو نہ صر ف افغان خطہ بلکہ ملحقہ خطوں کی بقاء کا مسئلہ بنے گا ، اور تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان دوست وفا میں کبھی پیچھے نہیں رہا۔
آج افغانستان میں بہت سے لسانی گروہ اپنی قوم کی شناخت کی کوشش میں مصروف ہیں لیکن افغان طالبان کی غلط پالیسیاں نہ صرف قوم کی شناخت بلکہ خطے کی شناخت کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔1979 سے افغانستا ن میں مردم شماری نہیں کی گئی، 2008 میں مردم شماری کی کوشش بھی ناکام ہو گئی، 2013 میں اعداوشمار تو جمع کیے گے لیکن کامیابی نہ مل سکی کیونکہ طالبان پاکستان کے ساتھ پنجہ آزمائی کی سازشوں میں مصروف تھے۔
آج افغانستان کی آبادی تقریباً 4 کروڑ سے زائد ہے جن میں 42 فیصد سے زائد پشتون اور دوسرا بڑا گروہ تاجک ہے ، نقطہ یہ ہے کہ اتنے بڑے اسلحہ ڈپو اور وسائل کے ساتھ طالبان اپنی قوم کی بہتری کا سوچ سکتے ہیں مگر وہ غیر قانونی جنگ کو جہاد سمجھتے ہیں ۔ میں یہاں ذکر کرنا مناسب سمجھوں گا کہ اگر افغانستان کی خواتین کو حقوق ملیں، بندوقیں بیچ کر اپنے بچوں کے ہاتھ میں کتا بیں تھما دی جائیں تو نہ صرف ایک بلکہ دو خطوں کی عوام کئی یورپی ممالک سے مضبوط اور لٹریسی ریٹ کا عالمی سطح پر تذکرہ کیا جائے گا ۔ لیکن میں پھر کہوں گا یہ سب تب ممکن ہو گا جب اپنوں کو مارنے سے نکل کر گلے لگانے کا سلسلہ شروع ہو گا۔انیس اکتوبر کو پاک افغان جنگ بندی کے ساتھ کامیاب مذاکرات کی وجہ سے ایک نئی امید کا پہلو نکلا ،لہذا اُمید ہے کہ دشمن کے آنچل میں پہنچنے کے بعد یہ اُمیدیں دم نہیں توڑیں گی بلکہ طالبان آبیاری کے لیے نئی اور بہتر اسٹر ٹیجی کا سوچیں گے۔
نوٹ:لکھاری علی رضا گورنمٹ کالج لاہور کے اسکالر ہیں جو مختلف اخبارات میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آپ مختلف بڑے نجی چینلز کے ساتھ کام کرچکے ہیں جو بین الاقوامی اور تایخی موضوعات پر خاصی مہارت رکھتے ہیں








