اسرائیل میں ہزاروں مذہبی طور پر قدامت پسند یہودی مردوں نے یروشلم میں فوجی بھرتی کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ مظاہرین نے سیاہ لباس اور ٹوپیاں پہن رکھی تھیں اور فوجی خدمات سے استثنیٰ کے حق میں نعرے لگاتے رہے، وہی استثنیٰ جس کا وعدہ وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو طویل عرصے سے کرتے آئے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق مظاہرین نے شہر کی مرکزی شاہراہوں پر مارچ کیا، فوجی بھرتی کے خلاف نعرے لگائے اور کئی مقامات پر ترپال کے ٹکڑوں کو آگ لگا دی۔ پولیس نے یروشلم کے تاریخی حصے میں ہزاروں اہلکار تعینات کر کے متعدد سڑکیں بند کر دیں۔یہ مظاہرہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب حالیہ مہینوں میں اسرائیلی حکام نے مذہبی یہودیوں کو فوج میں شامل ہونے کے لیے طلبی کے نوٹس جاری کیے اور بھرتی سے انکار کرنے والے کئی افراد کو قید بھی کیا جا چکا ہے۔

1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت ایک اصول کے تحت وہ مذہبی یہودی مرد جو مکمل طور پر مذہبی تعلیم میں مصروف ہوں، لازمی فوجی خدمت سے مستثنیٰ قرار دیے گئے تھے۔ تاہم غزہ جنگ کے بعد افرادی قوت کی کمی کے باعث اس استثنیٰ پر دباؤ بڑھ گیا۔جون 2024 میں اسرائیلی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ مذہبی یہودیوں کے لیے فوجی سروس سے استثنیٰ ختم ہو چکا ہے، اور حکومت اب انہیں لازمی طور پر بھرتی کرے۔ اس کے بعد پارلیمانی کمیٹی ایک نئے بل پر غور کر رہی ہے جس میں صرف وہ نوجوان مستثنیٰ ہوں گے جو مکمل وقت مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہوں۔

یہ مسئلہ نیتن یاہو کی دائیں بازو کی مخلوط حکومت کے لیے بڑا سیاسی چیلنج بن چکا ہے۔ شاس پارٹی کے وزرا نے جولائی میں احتجاجاً استعفیٰ دیا، جبکہ یونائیٹڈ تورہ جوڈائیزم پارٹی پہلے ہی حکومت چھوڑ چکی ہے۔

شہباز شریف اور صدر زرداری کی ملاقات، آزاد کشمیر حکومت سازی پر مشاورت

ای چالان غیر منصفانہ،کراچی میں مرکزی مسلم لیگ کی سندھ ہائی کورٹ میں درخواست

Shares: