تنزانیہ میں انتخابات کے بعد گزشتہ تین روز کے دوران پرتشدد مظاہروں میں تقریباً 700 افراد ہلاک ہوگئے۔

حزبِ اختلاف کی جماعت چاڈیما کے مطابق دارالسلام سمیت مختلف شہروں میں احتجاج جاری ہے جبکہ ملک بھر میں انٹرنیٹ بند اور کرفیو نافذ ہے۔صدر سامیا سُلحُو حسن نے بدھ کے انتخابات میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کی تھی، تاہم مخالفین کی گرفتاریوں اور انتخابی بے ضابطگیوں کے باعث صورتحال کشیدہ ہوگئی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق غیر ملکی صحافیوں پر پابندی کے سبب درست معلومات حاصل کرنا مشکل ہے۔ چاڈیما کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ دارالسلام میں 350، موانزا میں 200 سے زائد اور دیگر علاقوں سمیت مجموعی طور پر 700 کے قریب افراد مارے جا چکے ہیں، جبکہ اصل تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

اقوامِ متحدہ نے 10 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے، جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق کم از کم 100 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ فوجی سربراہ نے مظاہرین کو ’جرائم پیشہ‘ قرار دیا ہے۔زنجبار میں حکمران جماعت چاما چا مپندو کو فاتح قرار دیا گیا، تاہم حزبِ اختلاف نے نتائج کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔

مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ 1995 سے اب تک ملک میں کوئی انتخاب شفاف نہیں ہوا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق صدر حسن کو فوج کے کچھ حلقوں اور سابق صدر جان ماغوفولی کے حامیوں کی مخالفت کا سامنا ہے، اور ان پر اقتدار مضبوط کرنے اور مخالفین کو کچلنے کے الزامات عائد ہیں

ناصر شاہ کی سندھ میں فائر سیفٹی اقدامات تیز کرنے کی ہدایت

امریکا کی وینزویلا میں ممکنہ فوجی کارروائی کی تیاری، اہداف کی نشاندہی

Shares: