ڈنمارک نے ایک انقلابی تجویز پیش کر کے دنیا بھر میں ڈیجیٹل حقوق کے حوالے سے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ نئی کاپی رائٹ قانون سازی کے تحت ہر شہری کو اپنی شناخت، چہرے، آواز اور جسمانی ڈیٹا پر مکمل قانونی ملکیت دی جائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی کمپنی یا مصنوعی ذہانت (AI) سسٹم کسی شخص کے خدوخال، آواز یا جسمانی انداز کو بغیر اجازت استعمال نہیں کر سکے گا۔

یہ تجویز ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دنیا بھر میں ڈیپ فیک (Deepfake) ٹیکنالوجی تیزی سے عام ہو رہی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے کسی شخص کی مشابہت پر مبنی جعلی ویڈیوز یا آوازیں بنائی جاتی ہیں، جنہیں دھوکہ دہی، جعلی خبروں اور سیاسی مہمات میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ڈنمارک کی حکومت کے مطابق، کسی فرد کا ظاہری خدوخال اور آواز بھی دانشورانہ ملکیت کے زمرے میں آنا چاہیے۔ اس طرح اگر کسی کی شناخت کا غلط استعمال کیا جائے تو متاثرہ شخص قانونی طور پر معاوضہ یا ویڈیو ہٹانے کا مطالبہ کر سکے گا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ قانون منظور ہو گیا تو یہ دنیا بھر کے لیے ڈیجیٹل انسانی حقوق کا ایک نیا نمونہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ قدم واضح پیغام دیتا ہے کہ "انسانی شناخت محض ڈیٹا نہیں، بلکہ قابلِ احترام ملکیت ہے۔”

ڈنمارک کی اس تاریخی کوشش سے یہ بات بھی ابھر کر سامنے آتی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں اپنی شناخت کا تحفظ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔

Shares: