عالمی مالیاتی دنیا میں بھارتی نژاد بزنس مین کی جانب سے فراڈ کہانی سامنے آئی ہے، بھارتی نژاد ٹیلی کام ایگزیکٹو بانکم برہم بھت پر الزام ہے کہ اس نے بلیک راک کی پرائیویٹ کریڈٹ یونٹ اور کئی بڑے مالیاتی اداروں کو 500 ملین ڈالر (آدھا ارب ڈالر) کے قرض فراڈ میں الجھا دیا۔
یہ انکشاف امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل کی خصوصی رپورٹ میں ہوا ہے، جس کے مطابق بلیک راک کی ذیلی کمپنی HPS انویسٹمنٹ پارٹنرز سمیت متعدد قرض دہندگان نے الزام عائد کیا ہے کہ برہم بھت نے اپنی کمپنیوں براڈ بینڈ ٹیلی کام (Broadband Telecom) اور بریج وائس (Bridgevoice) کے ذریعے جعلی انوائسز اور جھوٹے اکاؤنٹس بنا کر بینکوں سے بھاری قرضے حاصل کیے، اور پھر رقوم کو بھارت اور ماریشس کے آف شور اکاؤنٹس میں منتقل کر دیا۔رپورٹ کے مطابق برہم بھت کی کمپنیوں پر قرض دہندگان کا واجب الادا قرضہ 500 ملین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔مقدمے میں کہا گیا ہے کہ یہ فراڈ نہایت منظم انداز میں کیا گیا، جہاں کمپنیوں کے مالی گوشوارے محض کاغذی خوشحالی کا دھوکہ تھے۔
فرانسیسی بینک BNP Paribas نے بھی HPS کے ذریعے دئیے گئے قرضوں کی فنانسنگ میں کردار ادا کیا تھا، تاہم بینک نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔یہ اسکینڈل ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بلیک راک نے رواں سال HPS انویسٹمنٹ پارٹنرز کو خرید کر پرائیویٹ کریڈٹ مارکیٹ میں اپنی توسیع شروع کی تھی۔ HPS نے ستمبر 2020 سے برہم بھت سے وابستہ کمپنیوں کو قرض دینا شروع کیا، جو بعد میں بڑھ کر 385 ملین ڈالر سے 430 ملین ڈالر (2021–2024) تک پہنچ گیا۔ذرائع کے مطابق BNP Paribas نے برہم بھت کے نیٹ ورک کی کمپنیوں، بالخصوص Carriox Capital اور اس کی ذیلی اداروں، کو دیے گئے قرضوں کا تقریباً آدھا حصہ فنانس کیا۔
وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق جولائی 2025 میں HPS کے ایک ملازم نے کمپنی کے کلائنٹس کے ای میل ایڈریسز میں مشکوک مماثلت دیکھی۔تحقیق سے پتا چلا کہ یہ ای میلز جعلی ڈومینز سے بنائی گئی تھیں، جو اصلی ٹیلی کام کمپنیوں سے مشابہ دکھائی دیتی تھیں۔مزید جانچ پر یہ بھی سامنے آیا کہ کئی ای میلز اور دستاویزات مکمل طور پر جعلی تھیں۔جب HPS کے حکام نے بانکم برہم بھت سے رابطہ کیا تو اس نے پہلے تشویش کو نظرانداز کیا اور پھر فون کالز کا جواب دینا بند کر دیا۔ایک HPS اہلکار نے جب گارڈن سٹی (نیو یارک) میں کمپنی کے دفاتر کا دورہ کیا تو دفاتر بند اور سنسان پائے گئے۔قریب کے کرایہ داروں نے بھی تصدیق کی کہ کئی ہفتوں سے کوئی ملازم دفتر میں داخل نہیں ہوا۔
برہم بھت کی رہائش گاہ پر دو BMW، ایک Porsche، ایک Tesla اور ایک Audi کھڑی دیکھی گئیں، جبکہ دروازے کے باہر ایک بند پیکج گرد سے اٹا ہوا پایا گیا۔فراڈ کے انکشاف کے بعد HPS نے امریکی لا فرم Quinn Emanuel اور اکاؤنٹنگ فرم CBIZ کی خدمات حاصل کیں۔تحقیقات سے معلوم ہوا کہ گزشتہ دو سالوں میں جمع کیے گئے تمام کسٹمر ای میلز جعلی تھے، اور کئی کانٹریکٹس 2018 سے جعلی دستاویزات پر مبنی تھے۔ایک نمایاں مثال بیلجیئم کی ٹیلی کام کمپنی BICS کی تھی، جس نے جولائی میں باقاعدہ تحریری طور پر تصدیق کی کہ ہمیں برہم بھت کی کمپنی کی جانب سے موصولہ ای میلز سے کوئی تعلق نہیں، یہ ایک واضح فراڈ کی کوشش تھی۔
مقدمے کے مطابق برہم بھت نے ایک ایسا مالیاتی تاثر پیدا کیا جس میں تمام اثاثے محض کاغذی تھے، حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں تھا۔،مزید الزامات کے مطابق اس نے ان جعلی اثاثوں کے نام پر حاصل کی گئی رقم بھارت اور ماریشس کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کر دی۔
یہ اسکینڈل عالمی مالیاتی مارکیٹ میں ایک بڑا دھچکا سمجھا جا رہا ہے، خاص طور پر اس وقت جب بلیک راک جیسی بڑی کمپنی پرائیویٹ کریڈٹ مارکیٹ میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا رہی تھی۔مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ڈیجیٹل دستاویزات پر اندھا اعتماد اور کمزور مالیاتی جانچ کے خطرات کو اجاگر کرتا ہے۔رپورٹ کے مطابق امریکی عدالت میں دائر مقدمہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، تاہم اگر الزامات درست ثابت ہوئے تو یہ امریکی مالیاتی تاریخ کے بڑے بین الاقوامی قرض فراڈز میں سے ایک قرار دیا جائے گا۔








